شانِ نزول
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ۱۱۵
اور جو شخص بھی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھر گیا ہے اور جہّنم میں جھونک دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے.
گذشتہ آیا ت کی شانِ نزول میں ہم کہہ چکے ہیں کہ بشیر بن ابیرق نے ایک مسلمان چوری کرنے کے بعد اس کا الزام ایک بے گناہ شخص پر دھر دیا اور حیلہ سازی سے پیغمبر اکرم کے سامنے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیا ۔ لیکن مذکورہ آیات کے نزول سے وہ رسوا ہوگیا۔ اس رسوائی کے بعد بجائے اس کے کہ توبہ کرتا اور راہِ حق پر لوٹ آتا ، اس نے کفر کا راستہ اختیار کرلیا اور واضح طور پر مسلمانوں سے الگ ہو گیا اس پ رمندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور اس سلسلے میں اسلام کا ایک عمومی حکم بیان کیا۔
تفسیر
جب انسان کسی غلطی کر مرتکب ہوتا ہے تو آگاہی کے بعد اس کے سامنے دوراستے ہوتے ہیں ۔ ایک ہے باز گشت اور توبہ کا راستہ ، جس کے ذریعے گناہ کے اثرات د’ھل جاتے ہیں اور اس تذکرہ گذشتہ چند آیات میں ہو چکا ہے ۔ دوسرا ہے ہٹ دھرمی اور عناد کا راستہ ، جس کے منحوس نتیجے کے بارے میں زیر بحث آیت میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
جو شخص حق آشکار ہونے کے بعد رسول کے سامنے مخالفت اور عناد کا مظاہرہ کرے او رراہ مومنین کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے تو ہم اسے اسی راستے کی طرف کھینچے لئے جائیں گے جس پر وہ جارہا ہے اور روز قیامت ہم اسے جہنم میں ڈالیں گے اور کیسی بری جگہ اس کے انتظار میں ہے
(وَ مَنْ یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبیلِ الْمُؤْمِنینَ نُوَلِّہِ ما تَوَلَّی وَ نُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَ ساء َتْ مَصیراً ) ۔
توجہ رہے کہ ” یشاقق“ ” شقاق“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ایسی سوچی سمجھی مخالفت جس میں عداوت و دشمنی ملی ہوئی ہو،
”وَ مَنْ یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدی“
(یعنی .....ہدایت اور راہ راست واضح ہو جانے کے بعد )...... یہ جملہ بھی اسی معنی کی تاکید کرتا ہے ۔ درحقیقت اس سے بہتر انجام ایسے لوگوں کے بس میںہی نہیں ۔ ان کا انجام اس دنیا میں بھی منحوس اور افسوس ناک ہے اور اس جہان میں بھی دردناک ہے ، اس جہان میں اس طرح جیسے قرآن کہتا ہے کہ وہ دن بدن اپنی غلط راہ میں زیادہ راسخ ہوجاتے ہیں وہ بے راہ روی میں جتنا آگے بڑھتے ہیں جادہٴ حق سے ان کا زاویہ انحراف اتنا ہی بڑھتا جا تا ہے ۔ اور یہ وہ انجام ہے جو انھوں نے اپنے لئے خود اختیار کیا ہے یہ ایسی تعمیر ہے جس کا سنگ بنیاد انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے رکھا ہے لہٰذا اس انجام کے سلسلے میں ان پر کوئی ظلم نہیں کیا گیا ۔ یہ جو ارشاد الہٰی ہے کہ” نولہ ماتولّی“ کے بارے میں ایک اور بے راہ روی میں پیش رفت کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔ ۱
۱-اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد ق ( ار دو ترجمہ ص۱۴۰) میں ” خدا کی طرف سے ہدایت و گمراہی “ کے زیر عنوان تفصیلی گفتگو کی جاچکی ہے ۔
نولہ ماتولّی ۔کے بارے میں ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ کہ ” ہم ایسے لوگوں کو انہی جعلی معبودوں کی سر پرستی میں رہنے دیں گے جو انھوں نے اپنے لئے خو د منتخب کررکھے ہیں ”نیز“ نصلہ جھنم“ قیامت میں ان کے انجام کی طرف اشارہ ہے ۔