Tafseer e Namoona

Topic

											

									  کامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ

										
																									
								

Ayat No : 78-79

: النساء

أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ ۗ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِنْدِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ۷۸مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا ۷۹

Translation

تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پالے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہوجاؤ- ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اچھے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف سے ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ سب خدا کی طرف سے ہے پھر آخر اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھتی ہی نہیں ہے. تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے .... اور اے پیغمبرہم نے آپ کو لوگوں کے لئے رسول بنایا ہے اور خدا گواہی کے لئے کافی ہے.

Tafseer

									قرآن اس آیت کے ذیل میں منافقین کی کچھ اور بے بنیاد باتوں اور باطل خیالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے : 
وہ جب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور نیکیاں اور حسنات ان کے ہاتھ آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے یعنی ہم اس قابل تھے کہ خدا نے ہمیں یہ شفقتیں اور نعمتیں عطا کی ہیں ۔ 
( وَإِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا ہَذِہِ مِنْ عِنْدِ اللهِ )
لیکن جب انھیں شکست کا سامنا ہو یا میدان جنگ میں کوئی مشکل لاحق ہو تو کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر کی غلط تدبیر اور ان کی جنگی حکمت عملی کے خام ہونے کی وجہ سے تھا اس ضمن میں وہ جنگ احد کی شکست کا حوالہ دیتے ہیں ۔
(وَإِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا ہَذِہِ مِنْ عِنْدِکَ) 
بعض مفسرین کا احتمال ہے کہ درج بالا آیت یہودیوں کے بارے میں ہے اور ” حسنہ“ اور ” سیئة“ سے مراد سارے اچھے اور برے حوادث و واقعات ہیں کیونکہ یہودی پیغمبر کے ظہور کے وقت اپنی زندگی کے اچھے حوادث کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے اور برے حوادث کو پیغمبر سے منسوب کردیتے تھے لیکن اس آیت کا ربط پہلے اور بعد کی ان آیات سے ہے جو منافقین کے بارے میں نشاندہی کرتی ہیں یہ آیت بھی زیادہ تر انہی سے مربوط ہے بہر حال قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ ایک موٴحد اور بالغ نظر خدا پرست کی نگاہ میں یہ تمام حوادث کامیابیاں اور شکستیں خدا کی طرف سے ہیں جولوگوں کی قابلیت اور اہلیت کے مطابق دی جاتی ہے ۔ 
( قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ)
اور آیت کے آخر میں اعتراض کے طور پر ان منافقین کی زندگی کے مختلف پہلووٴں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ فکر اور غور نہیں کرتے” پس کیوں یہ لوگ حقائق کاادراک کرنے کو تیار نہیں ہوتے“
( فَمَالِ ہَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا) ۔
اس کے بعد اگلی آیت میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے کہ تمام نیکیاں ، کامیابیاں اور حسنات جو تمہیں ملتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائیاں اور شکستیں تمھیں در پیش ہوتی ہیں اور وہ خود تمہاری طرف سے ہیں ۔ 
( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ)
اور آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو اپنی شکستوں اور ناکامیوں کی نسبت پیغمبر سے دیتے ہیں اور اصطلاحاً پیغمبرکی وجہ سے سمجھتے تھے انھیں جواب دیا گیا ۔ ۔ پیغمبر سے ارشاد ہوتا ہے : ” اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے اپنا پیامبرقرار دیاہے اور خدا اس پر گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے “۔ 
تو کایہ ممکن ہے کہ خدا کابھیجا ہوا لوگوں شکست، ناکامی او ربرائی کا سبب ہو؟ 
( وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَہِیدًا ) ۔