Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند اہم نکات

										
																									
								

Ayat No : 75

: النساء

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا ۷۵

Translation

اور آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں, عورتوں اور بچوں کے لئے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بناکر رکھا گیا ہے اور جو برابر دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس قریہ سے نجات دے دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے کوئی سرپرست اور اپنی طرف سے مددگار قرار دے دے.

Tafseer

									۔ اسلامی جہاد کے دو ہدف
جہاد اسلامی جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے ، مال و متال ، مقام و مرتبہ وسائل اور دوسرے ممالک کے خام مال پر قبضہ کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی منڈیاں تلاش کرنے یا عقیدہ اور سیاست ٹھونسنے کے لئے ہے بلکہ صرف اصولِ فضیلت و ایمان کی نشر و اشاعت اور محکوم ، ستم رسیدہ مردوں ، عورتوں اور محروم و مظلوم بچوں کے دفاع کے لئے ہے ۔ اس طرح جہاد کے دو جامع ہدفاور مقاصد ہیں جن کی طرف مندرجہ بالا آیت میں اشارہ ہوا ہے ایک ” خدا کی ہدف“ اور دوسرا” انسانی ہدف“ یہ دونوں حقیقت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور ان کی باز گشت ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ 
۲۔ معاشرے میں آزادیٴِ فکر و نظر
اسلام کی نگاہ میں وہ معاشرہ اور ماحول زندگی بسر کرنے کے قابل ہے جس میں آزادانہ اپنے صحیح عقیدے کے مطابق عمل کیا جاسکے، باقی رہا وہ ماحول یا معاشرہ جس میں گلا گھونٹ دیا جائے اور یہاں تک کہ انسان اتنا آزاد بھی نہ ہوکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکے ، اس میں زندگی نہیں گذاری جا سکتی ، جہاں صاحبِ ایمان افراد یہ آرزو کرتے ہوں کہ وہ ایسے ماحول سے باہر چلے جائیں کیونکہ ایسے ماحول میں صرف ستمگر کی بالا دستی ہوتی ہے ۔ 
قابل توجہ امر یہ ے کہ ” مکہ “ نہایت مقدس شہر اور مہاجرین کا اصل وطن تھا اس کے باوجود اس کی پر آشوب اور گھٹن زدہ کیفیت اس بات کا سبب بنی کہ وہ خدا سے در خواست کریں کہ وہ وہاں سے باہر نکل جائیں ۔ 
۳۔ یاور سے پہلے رہبر 
مندرجہ بالاآیت میں ہے کہ وہ مسلمان جو دشمن کے چنگل میں گرفتار تھے انھون نے پہلے تو اپنی نجات کے لئے خدا کی طرف سے ولی بھیجے جانے کا تقاضا کیا اور پھر ظالموں کے چنگل سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے نصیر اور مدد گارکی آرزوکی ۔ کیونکہ ہر چیز سے پہلے قابل اور درد مند ” رہبر“ اور سر پرست کا وجود ضروری ہے اور اس کے بعد یار و مددگار کی اور کافی تعداد میں افراد کی ضرورت ہے لہٰذا یہ یاور و مدد گار جتنے بھی ہوں ایک صحیح رہبر کے بغیر بے سود ہیں ۔
۴۔ بار گاہ الہٰی میں دستِ نیاز 
صاحبِ ایمان افراد ہرچیز خدا سے چاہتے ہیں اور وہ دستِ نیاز اس کے علاوہ کسی کے آگے نہیں دراز کرتے ، یہاں تک کہ اگر وہ ولی و مدد گار کا تقاضا کریں تب بھی اسی سے ( مدد) چاہتے ہیں ۔


۷۵۔ الَّذِینَ آمَنُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا اٴَوْلِیَاءَ الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا۔
جو صاحبِ ایمان ہیں وہ راہِ خدا میں جنگ کرتے ہیں اورجو کافر ہیں وہ طاغوت ( اور فسادی لوگوں ) کی راہ میں لڑتے ہیں لہٰذا تم ان شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو ( اور ان سے ڈرو نہیں ) کیونکہ شیطان کا مکرو فریب( اس کی طاقت کی طرح ) ضعیف و کمزور ہے ۔