Tafseer e Namoona

Topic

											

									  توسل به پیامبر(صلى الله علیه وآله) براى استغفار

										
																									
								

Ayat No : 64

: النساء

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا ۶۴

Translation

اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.

Tafseer

									  تفسیر
 قرآن نے گذشتہ آیات میں ظالم حکام اور قاضیوں کی طرف جانے کی مذمت کی ہے۔ اس آیت میں تاکید کے طور یہ فرمایا ہے کہ جن پیغمبروں کو سمجھتے ہیں وہ سب کے سب اس لیے ہیں تاکہ حکم خدا سے ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی قسم کی مخالفت نہ ہونے پائے (وما ارسلنا من رسول الالیطاع باذن الله) کیونکہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے تھے اور حکومت الٰہیہ کے رئیس بھی تھے اس لیے لوگوں کا فرض تھا کہ وہ خدا کے احکام کے بیان اور ان کا تعمیل میں ان کی پیروی کریں او صرف ایمان کا دعوٰی کرنے پر قناعت نہ کریں ۔ اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ سب لوگ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں ۔ اگر بعض لوگوں نے اپنی آزادی سے اور فائدہ اٹھاتے ہوئے اطاعت نہیں کی تو یہ ان کی اپنی کوتائی ہے۔
 بنابریں مندرجہ بالا آیت جبریوں کے اس عقیدے کی نفی کرتی ہے کہ کچھ لوگ شروع سے ہی اطاعت پر اوربعض عصیان و نافرمانی پر مامور تھے ۔
 ضمنی طور پر باذن اللہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کچھ خدا کے پیغمبروں کے پاس تھا وہ خداوند عالم کی طرف سے تھا یعنی ان کی اطاعت کا وجوب بالذات نہیں ہے کہ وہ خدا وند عالم کے فرمان سے اور اسی کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد آیت کے آخر میں گناہگاروں اور ان لوگوں کے لیے جو طاغوت کی طرف آتے جاتے ہیں یا اور کسی صورت میں گناہ کرچکے ہیں، واپسی کی راہ  کھولتے ہوئے فرماتا ہے :- جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا اگر وہ آپ کے پاس آجاتے اور خدا سے بخشش طلب کرتے اور پیغمبر بھی ان کے لیے طلب مغفرت کرتے تو خداوند عالم کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے (ولو انهم اذ ظلموا انفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما۔ 
 یہ امر توجہ طلب ہے کہ بجائے اس کے کہ قرآن کہتاکہ انہوں نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور ظالم حاکموں کی طرف گئے ہیں فرماتا ہے: اذ ظلموا أنفسهم ــ یعنی جب انہوں نے اپنے پر ظلم کیا ۔ مقصد یہ ہے کہ خدا تعالٰی کے حکم اور پیغمبرؐ کی اطاعت میں تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے اور ان کی مخالفت اپنے آپ پر ہی ظلم ہے کیونکہ یہ تمہاری مادی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے اور حقیقت میں معنو طور پرتمھاری پس ماندگی کا سبب ہے۔ 
 یہ آیت ان لوگوں کے لیے بھی واضح جواب ہے جو پیغمبرؐ اور امامؐ کے وسیلے کو ایک قسم کا شرک جانتے ہیں کیونکہ یہ آیت صراحت کے ساتھ علان کرتی ہے کہ بارگاہ پیغمبر آنا اور انہیں بارگاہ پیغمبر میں آنا اور انہیں بارگاہ رب العزت میں شفیع  قرار دینا اور ان کے وسیلہ اور ان کی جانب دعائے مغفرت توبہ کی قبولیت اور رحمت الٰہی کا ذرایعہ ہیں ۔ اگر پیغمبر کا واسطہ ، دعا ، استغفار اور شفاعت شرک ہوتے تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ خدا گناہگاروں کو اس طرح کا حکم دیتا۔ البتہ گناہگاروں کو چاہیے کہ وہ پہلے توبہ کریں اور گناہوں کو ترک کر دیں اس کے بعد اپنی توبہ کی قبولیت کے لیے رسول اکرم سے فیض حاصل کریں۔ 
 واضح ہے کہ پیغمبر خود گناہ معاف نہیں کرتے بلکہ وہ صرف خدا سے مغفرت طلب فرماتے ہیں اور یہ آیت ان لوگوں کے اعتراض کا دندان شکن جواب ہے جو اس قسم کی وساطت اور وسیلے کا انکار کرتے ہیں (غور فرمائیے گا) ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن یہ نہین فرماتا کہ تم ان کے لیے طلب مغفرت کرو بلکہ کہتا ہے کہ رسولؐ ان کے لیے استغفار کریں ۔ گویا یہ اس طرف اشارہ ہے کہ رسول اکرمؐ اپنے مقام اور مرتبہ سے انہیں فائدہ پہنچائیں اور توبہ کرنے والے گناہگاروں کے لیے طلب مغفرت فرمائیں۔ یہ معنی (یعنی پیغمبرکی طلب مغفرت کا مومنین کے لیے کارگر ہونا) قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں بھی آیا ہے مثلًا سورہ محمدؐ کی آیت 19 ، سورہ منافقون کی آیت 5،  اور سورۂ توبہ کی آیت 114 - 
 حضرت ابراہیمؑ کے اپنے چچا کے لیے استغفار کرنے کے متعلق اور دیگر آیات جو مشرکوں کے لیے استغفار سے منع کرتی ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ مومنین کے لیے استغفار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 
 نیز بعض آیتوں سے یہ نکلتا ہے کہ بعض گناہگار مومنین کے لیے فرشتے بھی بارگاہ اور رب العزت میں طلب مغفرت کرتے ہیں مثلا سورة غافر آیت 7 اور سوره شوریٰ آیت 5۔ 
 غرضیکہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں اسی مفہوم و معانی کا تذکرہ کرتی ہیں کہ پیغمبر ، فرشتے یا پاکدل مومن بعض گناہگاروں کے لیے استغفار کرتے ہیں اوران کی دعا بارگاہ خدا میں اثر رکھتی ہے۔ یہ بات پیغمبر ، ملائکہ اور پاک دل مومنین کی طرف سے گناہگاروں کی شفاعت کا معنی بھی دیتی ہے ۔ لیکن جیسا ہم کہہ چکے ہیں ایسی شفاعت کے لیے خطا کاروں میں خود بھی قابلیت اور استعداد ہونا چاہیے۔ 
 تعجب کی بات یہ ہے کچھ مفسرین کے بعض اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ آیت مندرجہ بالا میں پیغمبراکرم کے استغفارکو آپؐ کی ذات تک محدود رکھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ظلم وستم کیا تھا اس لیے ضروری تھا کہ ان کی رضامندی حاصل کریں ۔ تاکہ خدا تعالٰی ان کے گناہ معاف کردے۔ لیکن واضح ہے کہ پیغمبرؐ کے غیر سے فیصلہ کروانا صرف پیغمبر پر ظلم نہیں ہے بلکہ اس کے خاص منصب کی مخالفت بھی ہے یا دوسرے لفظوں میں خدا کے فرمان کی مخالفت ہے۔ اگر یہ فرض کرلیں کہ یہ ذات پیغمبر پرظلم تھا تب بھی قرآن نے اس کا سہارا نہیں لیا بلکہ قرآن نے تو یہ کہا ہے کہ ان کا طرزعمل فرمان خدا کے خلاف تھا۔ 
 علاوہ ازیں اگر ہم کسی پر ظالم کریں تو اس کی رضا مند ہو جانا کافی ہے اور بارگاہ خداوندی میں استغفار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ان سب باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بالفرض اگرآیت کی یہ تفسیر کریں تو باقی ان سب آیتوں کے بارے میں جو پیغمبروں ، فرشتوں اور مومنین کے استغفار کوگناہگاروں کے ان میں موثر قرار دیتی ہیں کیا کہیں گے ۔ کیا وہاں بھی شخصی حقوق تھے۔