ہم کافروں کو آگ میں ڈالیں گے
أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا ۵۳أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا ۵۴فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ صَدَّ عَنْهُ ۚ وَكَفَىٰ بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا ۵۵
کیا ملک دنیا میں ان کا بھی کوئی حصہ ّہے کہ لوگوں کو بھوسی برابر بھی نہیں دینا چاہتے ہیں. یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے تو پھر ہم نے آلِ ابراہیم علیھ السّلامکو کتاب و حکمت اور ملک عظیم سب کچھ عطا کیا ہے. پھر ان میں سے بعض ان چیزوں پر ایمان لے آئے اور بعض نے انکار کردیا اور ان لوگوں کے لئے دہکتا ہوا جہّنم ہی کافی ہے.
گذشتہ آیتوں کے بعد ان دو آیتوں میں ایماندار اور بے ایمان کے انجام کی وضاحت کی گئی ہے ۔ پہلی آیت علان کرتی ہے کہ ہم کافروں کو آگ میں ڈالیں گے اور جس وقت ان کے بدن کی کھال جل جائے گی تو دوسری کھال اُگا دیں گے تاکہ وہ خدا وند عالم کی سزا کا دیر تک مزا چکھیں
(إِنَّ الَّذینَ کَفَرُوا بِآیاتِنا سَوْفَ نُصْلیہِمْ ناراً کُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْناہُمْ جُلُوداً غَیْرَہا لِیَذُوقُوا الْعَذاب)۱
کھال کے تبدیل ہونے کا سبب بظاہریہ ہے کہ ممکن ہے جلد کے جل جانے کے بعد درد کم محسوس ہو۔ مگر اس وجہ سے تاکہ سزا میں تخفیف نہ ہو بلکہ وہ پورے زورر پر رہے اس کے جسم پر نئی جلد چڑھادی جائے گی ۔ یہ حق و عدالت کو پاوٴں تلے روندنے اور خدا کے حکم نہ منہ موڑ نے پر اصرار کا نتیجہ ہے ۔ آیت کے آخر میں فرماتا ہے : خدا اس قسم کی سزادینے ہر قادر و توانا ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے وہ حساب کے مطابق سزا دیتاہے ( َ إِنَّ اللَّہَ کانَ عَزیزاً حَکیماً ۔)
اس کے بعد آنے والی آیت میں ان افراد کو جو ایمان اور عمل صالح رکھنے والے ہیں وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں بہت جلد جنت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں داخل کرے گا ۔ جہاں ایک ابدی اور جاودانی زندگی ہو گی۔ اس کے علاوہ انہیں پاک بیویاں دی جائیں گی جو ان کی روح اور جسم کی تسکین اور آرام کا سبب ہوں گی اور وہ ایسے درختوں کے سائے میں زندگی بسر کریں گے جو اس دنیا کی ڈھلتی چھاوٴں کے خلاف ہمیشہ رہنے والے سائے ہوں گے۔ وہاں کبھی گرمی کی لو اور سر دی کی ہوا کا گزر نہ ہوگا
(وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ خالِدینَ فیہا اٴَبَداً لَہُمْ فیہا اٴَزْواجٌ مُطَہَّرَةٌ وَ نُدْخِلُہُمْ ظِلاًّ ظَلیلاً )۔۲
یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ ان دونوں آیتوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ اور موازنہ کرنے سے رحمتِ الہٰی کی وسعت اور اس کی رحمت کا اس کے غضب سے بڑھ چڑھ کر ہونا معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی آیت میں کفار کو سزا دینے کا وعدہ کرنے لئے لفظ” سوف“ کا ذکرفرمایا ہے جبکہ دوسری آیت میں ایماندار افراد کے لئے ” س“ کے لفظ سے ( سندخلھم ) جزا کا وعدہ کیا ہے ۔ عربی ادب میں ہے کہ ” سوف“ عام طور پر مستقبل بعید کے لئے اور ” س“ مستقبل قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ دونوں آیتیں قیامت کے دن سے متعلق ہیں اور اس دنیا میں بد کاروں کی سزا اور نیکوں کی جزا ہماری نسبت فاصلہٴ زمانی کے لحاظ سے یکسان ہے ۔ یہ فرق اس لئے ہے تاکہ خدا کی رحمت کی سرعت و وسعت اور غضب کی دوری اور اس کی حد بندی کی طرف اشارہ ہوجائے اور یہ اس کی مانند ہے جیسے ہم دعاوٴں میں پڑھتے ہیں :
یا من سبقت رحمتہ غضبہ
اے وہ ذات اقدس جس کی رحمت اس کے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۔
۱- نصلیھم ” صلی “ کے مادہ سے آگ میں ڈالنے اور آگ میں جلنے سے گرم ہونے کے معنی میں ہے ” نضجت“ نضج“ کے مادہ سے بھن جانے کے معنی میں ہے ۔
۲ظلیل مادہ” ظل“ سے سایہ کے معنی میں ہے اور یہاں تاکید کے لئے استعمال ہواہے کیونکہ ظل ظلیل گھنے سائے کے معنی دیتا ہے اور یہ کنایہ ہے ہمیشہ رہنے والے خوشگوار گھنے سائے کے لئے ۔