چند اہم نکات
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ۴۳
ایمان والو خبر دار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی مگر یہ کہ راستہ سے گزر رہے ہو جب تک غسل نہ کرلو اور اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پیخانہ نکل آئے, یا عورتوں سے باہمی جنسی ربط قائم ہوجائے اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تمیم کرلو اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے.
۱۔ فلم تجدوا ماء ً کاجملہ جو ااصطلاح کے مطابق فاء تفریع سے شروع ہوتا ہے اور ” علیٰ سفر“ سے مربوط ہے یعنی جس وقت تم سفر میں ہو تو ممکن ہے کہ پانی نہ مل سکے اور تمہیں تیمم کی ضرورت پڑے کیونکہ انسان جب بستی میں ہو پھر ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے ۔ یہاں سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ جو بات صاحب المنار جیسے مفسرین نے لکھی ہے کہ ” فقط مسافرت ہی وضو کی بجائے تیمم کرنے کے لئے کافی ہے ۔” بالکل بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ فاء تفریعی ” فلم تجدوا “ میں اس بات کو باطل کردیتا ہے ۔ اس لئے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سفر میں کبھی پانی نہیں ملتا تو ایسے موقع پر تیمم کرلینا چاہئیے نہ یہ کہ حالت سفر ہی میں تیمم جائز ہے ۔ تعجب ہے کہ مولف مذکور اس سلسلے میں فقہا پر تنقید کرتا ہے جبکہ مذکورہ تنقید کا یہاں کوئی مقام نہیں ہے ۔
۲۔ لفظ ”او“ اوجاء احد منکم من الغائط “ کے جملہ میں ”واوٴ“ کے معنی میں ہے کیونکہ بیماری یا مسافرت تیمم ک اسبب نہیں ہیں بلکہ ایسی حالت میں اگر اسباب وضو یا غسل حاصل نہ ہوں تو اس وقت تیمم واجب ہے ۔
۳۔ اس آیت میں قرآن کے بیان کی نفاست و پاکیزگی دوسری بہت سی آیتوں کی طرح مکمل طور پر دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ جب چاہتا ہے کہ قضائے حاجت کے متعلق گفتگو کرے تو ایسی تعبیر کو چنتا ہے جو مطلب سمجھادے اور نامناسب لفظ بھی استعمال نہ ہونے پائے اس لئے فرماتا ہے :
اوجاء احد منکم من الغائط اس کی وضاحت یوںہے کہ ” غائط “ بخلاف اس مفہوم کے جو آجکل اس سے سمجھا جاتا ہے ۔1
اصل میں ایسی نشیبی زمین کے لئے بولا جاتا ہے جو انسان کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپالے اور اس زمانے میں بیابانوں میں پھر نے والے اور مسافر لوگ قضائے حاجت کے لئے ایسی جگہوں پر جاتے تھے تاکہ وہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہیں ۔ بنابرین اس جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص نشیبی جگہ سے آیاہو جو عام طور پر قضائے حاجت کی طرف کنایہ ہے اور قابل توجہ یہ بات ہے کہ تم کی بجائے تم میں سے کوئی لفظ استعمال ہوا ہے تاکہ بیان کی نفاست بڑھ جائے ( غور فرمائیے گا)۔
اسی طرح مباشرت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو ” اولامستم النساء“ یا عورتوں سے لمس کیا ہو کی تعبیر سے سمجھا یا گیا ہے اور لفظ ” لمس“ ہم بستری کے لئے عمدہ کنایہ ہے ۔
۴۔ تیمم کی باقی خصوصات کے بارے میں منجملہ ” صعیداً طیباً“ انشاء اللہ سورہ ٴ مائدہ کی آیت ۶ کے ذیل میں تفصیل سے بحث کی جائے گی۔
1-غائط کا لفظ آج کل عموماً انسانی فضلہ کے لئے بولا جاتا ہے ۔