Tafseer e Namoona

Topic

											

									  رسل اور نکاح موقت

										
																									
								

Ayat No : 24

: النساء

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ۲۴

Translation

اورتم پر حرام ہیں شادی شدہ عورتیں- علاوہ ان کے جو تمہاری کنیزیں بن جائیں- یہ خدا کا کھلا ہوا قانون ہے اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو عفت و پاک دامنی کے ساتھً سفاح و زنا کے ساتھ نہیں پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے.

Tafseer

									اس گفتگو کے آخرایک مفید بات کی یاد دہانی ضروری معلوم ہوتی ہے جسے مشہور انگریز دانشور بر ٹرنڈ رسل نے اپنی کتاب ” زنا شوئی اور اخلاق “۱
۱یہ بر ٹربڈ رسل کی کتاب کے فارسی ترجمے کانام ہے ۔ (مترجم )
میں آزمائشی شادی کے عنوان کے تحت لکھا ہے ۔ وہ نوجوان کا محاکمہ کرنے والے جج ” بن بی لیند سی “ کی تجویز دوستانہ شادی یا آزمائشی شادی کا ذخر کرنے کے بعد لکھتا ہے : 
جج صاحب موصوف کی تجویز کے مطابق نوجوانوں کو یہ اختیار ملنا چاہیئے کہ وہ ایک نئی قسم کی شادی کر سکیں ۔ جو عام شادی ( نکاح دائمی ) سے تین امور میں مختلف ہو۔

۱۔ طرفین کا مصد صاحب اولاد ہونا نہ ہو اس سلسلے میں ضروری ہے کہ انہیں حمل روکنے کے طریقے سکھائے جائیں ۔ 
۲۔ ان کی علیحدگی بآسانی ہو سکے ۔ 
۳۔ طلاق کے بعد عورت کسی قسم کے نان و نفقہ کا حق نہیں رکھتی ہو۔ 
رسل جج لیند سی کا مقصد بیان کرنے بعد کہتا ہے: 
میراخیال ہے کہ اگر اس قسم کی شادی کو قانونی طور پر درست مان لیا جائے تو بہت نو جوان خصوصاً کالجوں او ریونیورسٹیوں کے طالب علم وقتی نکاح پرتیار ہو جائیں گے اور ایک وقتی مشترک زندگی میں قدم رکھیں گے۔ ایسی زندگی جو اپنی جلومیں آزادی لئے ہوئے ہے اس طرح بہت سی معاشرے کے خرابیوں ، لڑائی جھگڑوں ، خصوصاً جنسی بے راہ روی سے نجات مل جائے گی ۔۱
۱کتاب زنا شوئی و اخلاق صفحة ۱۸۹ و ۱۹۰۔ 
جیسا کہ آپ پڑ چکے ہیں کہ نکاح موقت کے بارے میں مندرجہ بالاتجویز کئی لحاظ سے اسلامی حکم کی طرح ہے لیکن جو شرطیں اورخصوصیتیں اسلام نے نکاح موقت کے لئے تجویز کی ہیں وہ کئی لحاظ سے زیادہ واضح اورمکمل ہیں ۔ اسلامی نکاح موقت میں اولاد نہ ہونے دینا ممنوع نہیں ہے اور فریقین کا ایک دوسرے سے جدا ہونا بھی آسان ہے ۔ جدائی کے بعد نان و نفقہ بھی واجب نہیں ہے ۔ 
ولاجناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضة 
آیت کے آخر میں یہ ذخر کرنے کے بعد کہ حق مہر کی دائیگی ضروری ہے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر طرفین عقد ایک دوسرے کی رضا مندی کے ساتھ حق مہر کی مقدار میں کمی بیشی کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس لئے کہ مہر ایک ایسا قرض ہے جو طرفین کی مرضی سے تبدیل ہو سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں عقد موقت و دائمی میںکوئی فرق نہیں ہے اگر چہ ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ یہ آیت نکاح موقت کے بارے میں ہے ۔ 
مندرجہ بالاآیت کی تفسیر میں ایک اور بھی احتمال ہے اور وہ یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ نکاح موقت کے ختم ہونے پرطر فین مدتِ نکاح اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ طے کرلیتے ہیں کہ معین شدہ مدت نکاح اور مقررہ حق مہر دونوں میں بقدر ضرورت اضافہ کر دیا جائے۔ روایات اہل بیت (ع) میں بھی اس تفسیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ 
انَّ اللّہ کان علیماً حکیماً
جن احکام کی طرف اس آیت میں اشارہ ہوا ہے وہ ایسے ہیں جو نوع ِ بشر کے لئے خیرو سعادت کے حامل ہیں کیونکہ پر وردگار عالم بندوں کے مصالح سے آگاہ اور اجرائے قانون میں حکیم ہے ۔

 
۱ غلاموں کی آزادی کے سلسلے میں اسلام نے جو زبر دست لائمہ عمل اختیار کیا اس کے بارے میں متعلقہ آیات کے ذیل میں تفصیلی بحث کی جائے گی ۔

 
۱وہ لوگ جو پیغمبر کے زمانے کے بعد آئے اور آنحضرت کے زمانے کو نہ پاسکے۔

 
۲۵۔وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اٴَنْ یَنْکِحَ الْمُحْصَناتِ الْمُؤْمِناتِ فَمِنْ ما مَلَکَتْ اٴَیْمانُکُمْ مِنْ فَتَیاتِکُمُ الْمُؤْمِناتِ وَ اللَّہُ اٴَعْلَمُ بِإیمانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ اٴَہْلِہِنَّ وَ آتُوہُنَّ اٴُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَناتٍ غَیْرَ مُسافِحاتٍ وَ لا مُتَّخِذاتِ اٴَخْدانٍ فَإِذا اٴُحْصِنَّ فَإِنْ اٴَتَیْنَ بِفاحِشَةٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ ما عَلَی الْمُحْصَناتِ مِنَ الْعَذابِ ذلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ وَ اٴَنْ تَصْبِرُوا خَیْرٌ لَکُمْ وَ اللَّہُ غَفُورٌ رَحیمٌ۔
ترجمہ
۲۵ ۔ اور جو لوگ (آزاد ) پاک دامن عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ کنیزوں میں سے پاک دامن ایماندار عورتوں سے جو ان کی ملکیت میں ہیں نکاح کریں ۔ خدا تمہارے ایمان سے آگاہ ہے اور تم سب ایک ہی پیکر کے مختلف اگزاء ہو ۔ اور ان (کنیزوں )سے ان کے ملکوں کی اجازت سے نکاح کرو ۔ لیکن ان کا حق مہر ان ہی کو اس شرط کے ساتھ دو کہ وہ پاک دامن رہیں ۔ یہ یہ کہ وہ کھلے بندوں زنا کرتی پھریں اور نہ ڈھکے چھپے یار بنائیں اور جب وہ سہاگن ہوں اور پھر عفت کے منافی کام کریں تو ان کے لئے آزاد عورتوں سے آدھی سزا ہو گی ۔ ( کنیزوں سے نکاح کرنے کی ) یہ اجازت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو ( جنسی تقاضوں کے حوالے سے ) سخت تنگ ہوں ۔ اگر صبر و تحمل سے کام لو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر