اسلام کے تعزیری قوانین کا سہل اور ممتنع طریقہ
وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ۱۵وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنْكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَحِيمًا ۱۶
اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں ان پر اپنوں میں سے چار گواہوں کی گواہی لو اور جب گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو- یہاں تک کہ موت آجائے یا خدا ان کے لئے کوئی راستہ مقرر کردے. اور تم میں سے جو آدمی بدکاری کریں انہیں اذیت دو پھر اگر توبہ کرلیں اور اپنے حال کی اصلاح کرلیں تو ان سے اعراض کرو کہ خدا بہت توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے.
کبھی کبھی بعض لوگ کئی ایک مناسبتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام نے تعزیری قوانین کی اتنی سخت اور باقابل برداشت سزائیں کیوں مقرر کی ہیں ۔ مثلا ً ایک مرتبہ شادی شدہ عورت سے زنا کرنے کی سزا پہلے عمر قید مقرر ہوئی اس کے بعد قتل ۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ اس قسم کے گناہوں کی سزا زیادہ نرم اور ہلکی دی جائے تا کہ جرم اوع سزا میں اعتدال قائم رہے ۔
لیکن ذرا سوچئے اگر چہ اسلام کے تعزیری قوانین اور سزائیں بظاہر سخت اور شدید دکھائی دیدتی ہیں لیکن اس کے مقابلے میں جرم کے ثابت ہونے کا طریقہ اتنا آسان نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ایسی شرطیں لگائی گئی ہیں کہ غالبا ً جب تک ڈنکے کی چوٹ اور بر سر عام نہ کیا جائے وہ شرائط پوری نہ ہوں گی ۔ مثلاً گوہوں کی تعداد چار ہے ۔ جس کی طرف ہم گذشتہ آیت میں اشارہ کر چکے ہیں کہ صرف نڈر اور لا پرواہ افراد ہی مجرم ثابت ہو سکتے ہیں ۔ واضح ہے کہ اس قسم کے اوباش لوگوں کو سخت سزا دینا چاہیے ۔ تا کہ وہ معاشرے کے لئے عبرت بن سکیں اور وہ گناہ کی آلودگی سے پاک ہو جائے ۔ اسی طرح گواہوں کی شہادت کے لئے کچھ شرطیں ہیں مثلا آنکھوں سے دیکھنا اور قنائن پر قناعت نہ کرنا اور شہادت میں یکسانیت وغیرہ جو کہ جرم کو ثابت اور گھناوٴنا کر دیتی ہے ۔
اس طرح اس قسم کی سخت ترین سزا کا امکان گناہ گاروں کے سامنے رکھا ہے اور یہ احتمال چاہے کتنا ہی ضعیف کیوں نہ ہو بہر حال بہت سے لوگوں کی نفسیات پر اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن اسلام نے اس کے اثبات کو مشکل کر دیا ہے تا کہ اگر ایسے مواقع آئیں تو عملی طور پر یہ سزا وسیع پیمانے پر نہ دی جاسکے ۔ در حقیقت اسلام چاہتا ہے کہ اس قانون تعزیر کا اثر تہدید بھی قائم رہے اور زیادہ افراد قتل بھی نہ ہوں ۔غرض نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سزا کے تعین اور اثبات جرم کی راہ میں اسلام کا یہ طریقہ ایسی روش ہے جو معاشرے کو گناہ کی آلودگی سے بچانے کے لئے بہت موثر ہے جبکہ جن افراد کو یہ سزا دی جاتی ہے وہ زیادہ تعداد میں بھی نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر ہم نے اس روش اور طریقہ کا عنوان سہل اور ممتنع رکھا ہے ۔
۱۷۔ إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللَّہِ لِلَّذینَ یَعْمَلُونَ السُّوء َ بِجَہالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَریبٍ فَاٴُولئِکَ یَتُوبُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ وَ کانَ اللَّہُ عَلیماً حَکیماً ۔
۱۸ ۔وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئاتِ حَتَّی إِذا حَضَرَ اٴَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَ لاَ الَّذینَ یَمُوتُونَ وَ ہُمْ کُفَّارٌ اٴُولئِکَ اٴَعْتَدْنا لَہُمْ عَذاباً اٴَلیماً ۔
ترجمہ
۱۷ ۔ توبہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جہالت کی وجہ سے برے کام کرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی سے توبہ کر لیتے ہیں ۔خدا ایسے لوگوں کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور وہ دانا و حکیم ہے ۔
۱۸ ۔اور برے کام کرنے والے لوگوں میں سے جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں ۔ یہ توبہ نہیں ہے اور نہ ان کے لئے جو حالت کفر میں دنیا سے اٹھ جا تے ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔