Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اسلامی قانون میراچ کی خصوصیات

										
																									
								

Ayat No : 13-14

: النساء

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۱۳وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ ۱۴

Translation

یہ سب الٰہی حدود ہیں اور جو اللہ و رسول کی اطاعت کرے گا خدا اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور درحقیقت یہی سب سے بڑی کامیابی ہے. اور جو خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا اور ا سکے حدود سے تجاوز کرجائے گا خدا اسے جہّنم میں داخل کردے گا اور وہ وہیں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے.

Tafseer

									عام طور پر میراث کے قانون میں اور خاص طور پر اسلام کے میراث کے قانون میں کئی ایک خوبیاں ہیں ۔ ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :
۱۔ اسلامی نظام میراث میں یہ خوبی ہے کہ اس میں متوفی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بھی سلسلہ مراتب کو پیش نظر رکھتے ہوئے میراث سے محروم نہیں رہتا اور یہ جو رواج زمانہ ٴ جاہلیت کے عربوں اوربعض دوسرے ملکوں میں تھا کہ وہ عورتوں اور بچوں کو ہتھیار نہ اٹھا سکنے اور جنگ کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے میراث سے محروم کر دتے تھے اور متوفی کی دولت دور کے رشتہ داروں کو دے دیتے تھے ، اسلام ی قانون میراث ان سب افرد پر محیط ہے جو مرنے والے کے ساتھ کوئی نسبت یا ربط رکھتے ہیں ۔
۲۔ یہ قوانین جائز اور فطری ضروریات انسانی کے لئے مثبت پہلو رکھتے ہیں کیونکہ انسان ہمیشہ یہ چاہتاہے کہ اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت ایسے افراد کے ہاتھوں میں دیکھے جو اس کے جگر کا ٹکڑا ہیں اور ان کی زندگی حقیقت میں ان کی زندگی کی بقا و دوام ہے ۔ اس لئے قانون میراث میں اولاد کا حصہ سب سے زیادہ ہے جبکہ ماں باپ اور باقی رشتہ د ار وغیرہ اپنے مقام پر مناسب حصہ کے حامل ہیں ۔ 
۳۔ یہ قانون انسان کو زیادہ دولت کمانے اور اقتصادی گاڑی کے پہیوں کو حرکت دینے کے سلسلے میں شوق دلاتا اور ابھارتا ہے ۔ کیونکہ جب انسان اپنی زندگی کی محنت کے نتیجے کو اپنے مرکز محبت و تعلق کے حصہ میں دیکھتا ہے تو پھر وہ چاہے کسی سن اور حالت میں ہو کام کرنے کے لئے اس کا شوق بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کی مصروفیا ت میں ٹھہراوٴ اور وقفہ نہیں آتا ۔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں کہ جب بعض ممالک میں قانون میراث کو لغو قرار دیا گیا اور مرنے والوں کا مال اور جائداد حکومت کو دے دئے گئے رتو جلد ہی اس ملک کے اقتصادی ماحول میں اس قانون کے منفی اثرات جمود کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔ اس لئے انہیں مجبوراً یہ قانون ختم کرنا پڑا ۔
۴۔ اسلام کا قنون میراث دولت کو ایک جگہ جمع کرنے سے روکتا ہے کیونکہ اس نظام میں ہر انتقال کے بعد دولر و ثروت عادلانہ طور پر بہت سے افراد میں بانٹی جاتی ہے اس لئے یہ نظام دولت کی عادلانہ تقسیم کے لئے معاون مددگار ہے ۔ یہ بات قبل توجہ ہے کہ آج کی دنیا میں تقسیم دولت کی جو مختلف شکلیں ہیں ان سے اکثر معاشرے کو نقصان اور تکلیف پہنچی ہے ۔ اسلام کا قنون میراث اس طرح کا نہیں ہے بلکہ اس میں مال کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ اسے سب ہنسی خوشی قبول کرتے ہیں ۔
۵۔ اسلامی قانون میراث متوفی سے صرف میل جول رکھنے کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ وارثوں کی حقیقی ضروریات کو بھی سامنے رکھا جاتاہے ۔ مثلا ً ہم دیکھتے ہیں کہ بیٹوں کا حصہ بیٹیوں کی نسبت دوگنا ہے ۔ یا بعض حالات میں بعض حالات میں باپ کا حصہ ماں سے زیادہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون اسلامی کے مطابق مرد کی زیادہ ذمہ داریاں ہیں عورتوں کا زندگی کا خرچ مردوں کے کندھے پر ہے ۔ اسی لئے ان کو عورتوں کی نسبت زیادہ ضرورت ہے ۔