Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ایک سوال اور اس کا جواب

										
																									
								

Ayat No : 11-12

: النساء

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ۱۱وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ ۱۲

Translation

اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تواس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، پس اگر میت کے بھائی ہوں تو ماں کوچھٹا حصہ ملے گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی، تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے. اور تمہیںاپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گااور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میںسے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولادہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پرعمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے.

Tafseer

									یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں قرآن فرماتا ہے ” فوق اثنین “ یعنی اگر دو بیٹیوں سے زیادہ ہوں تو دو تہائی مال ان کا ہے اس بناء ہر آیت دو لڑکیوں کے حکم سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے کیونکہ اس نے صرف ایک یا چند بیٹیوں کا حکم بیان کیا ہے ۔
اس سوال کا جواب آیت کے پہلے حصہ پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے :
لذکر مثل حظ الانثین
یعنی ۔ لڑکا لڑکی سے دو گنا حصہ لے گا ۔
اگر کسی مرنے والے کے پس مندگان میں فقط ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو تو بیٹی کا حصہ ایک تہائی اور بیٹے کا دو تہائی ہوتا ہے۔
بنا بریں اس کے مطابق دو بیٹیوں کا حصہ دو تہائی ہو گا ۔ شاید اسی وجہ سے بعد میں آنے والے جملے میں دو بیٹیوں کے حصہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ چند بیٹیوں کے حصہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ جو دو تہائی سے نہیں بڑھتا ( غور فرمایئے گا )۔
نیز سورے نساء کی آخری آیت پر غور و فکر کرنے سے بھی یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ اس آیت میں ایک بہن کا حصہ ( ایک بیٹی کی طرح ) آدھا قرار دیا گیا ہے
۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اگر دو بہنیں ہوں تو انہیں دو تہائی مال ملے گا ۔ اس حکم سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دو بیٹیوں کا حصہ بھی دو تہائی ہے ۔
اس کے علاوہ یہ تعبیر عربی ادب میں دکھائی دیتی ہے، وہ کبھی لکھتے ہیں ” فوق اثنین “ جس سے مراد ہوتا ہے (اثنتان و ما فوق ) یعنی دو یا دو سے زیادہ ۔
ان تمام امور کو چھوڑتے ہوئے حکم مذکور فقہ اسلامی اور منابع حدیث کے لحاظ سے تسلیم شدہ ہے فرض کی جئے کہ مندرجہ بالا جملے میں شک و شبہ کی گنجائش ہے تو وہ مصادر حدیث پر ایک نگاہ ڈالنے سے دور ہو جاتا ہے۔
مرد کی میراث عورت سے دوگنی کیوں ہے ؟ 
بظاہر تو مرد کا ورثہ عورت سے دو چند ہے لیکن غور کرنے سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ ایک لحاظ سے عورت کی میراث مرد سے دوگنی ہے اور یہ اس حمایت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہے جو اسلام نے عورت کے حقوق کی فرمائی ہے ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مردوں کی ذمہ داریوں کی ملحوظ رکھاجائے تو مرد کی آدھی آمدنی عملی طور پر عورتوں پر خرچ ہوتی ہے ۔ جبکہ عورت کے ذمہ ایسی کوئی چیز نہیں ۔مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی زندگی کے لوازمات اس کی ضرورت کے مطابق مکان ، لباس ، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کرے ۔ چھوٹے بچوں کی ضروریات بھی مرد کے ذمہ ہےں۔ جبکہ عورتوں کے ذمہ یہ لوازم نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ اپنی ضروریات زندگی بھی ان کے ذمہ نہیں ہیں ۔ اس وجہ سے ایک عورت یہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنی تمام میراث کو اپنی بچت کے طور پر رکھے جبکہ مرد اپنے اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کے لئے مجبور ہے اس کا عملی نتیجہ یہی نکلے گا کہ مرد کی آدھی آمدنی عورت پر اور آدھی اپنے پر خرچ ہوگی جبکہ عورت کا حصہ جوں کا توں باقی رہ جاتا ہے ۔
مزید وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل مثال کی طرف توجہ فرمایئے :
فرض کیجئے کہ دنیا کی کل دولت ۳۰ ارب روپے ہے ۔ جو میراث کی رو سے عورتوں ، مردوں ۔ بیٹیوں اور بیٹوں میں بانٹی جانا ہے اب دنیا کے تمام مردوں کی آمدنی کا عورتوں کی آمدنی کے ساتھ بلحاظ میراث حساب کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس رقم میں سے ۲۰ / ارب مردوں کے ہیں اور دس ارب عورتوں کے ۔ جب معمول کے مطابق عورتوں کی شادی ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ ان کے لوازمات زندگی کا تمام تربوجھ مردوں پر ہوگا ۔ اس طرح عورتیں اہنے حصہ کا دس ارب روپیہ بچا سکتی ہیں کیونکہ وہ عملی طور پر مردوں کے ۲۰ / ارب روپے میں شریک ہیں وہ ان پر اور ان کی اولاد پر خرچ ہوگا ۔
اس طرح مردوں کا آدھا حصہ ( دس ارب روپے ) عورتوں پر خرچ ہوگا ۔ اب اگر اس کے ساتھ اس دس ارب روپے کو جمع کیا جائے جو انہوں نے بچایا ہے تو یوں یہ رقم مجموعی تور پر ۲۰ /ارب روپے بنتی ہے ۔ جو پوری دنیا کے سرمایہ کا دو تہائی ہے جبکہ مرد عملی طور پر دس ارب روپے سے زیادہ اپنے پر خرچ نہیں کر سکتے ۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خرچ اور فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے عورتوں کا اصلی حصہ مردوں کے حقیقی حصہ سے دوگنا ہے ۔ یہ فرق اس لئے ہے کہ عموماً عورتوں میں روپئے کمانے کی صلاحیت کم ہے ۔ یہ اسلام کی طرف سے عورتوں کی منطقی اور عادلانہ حمایت ہے ۔ اگر چہ ظاہری طور پر عورتوں کا حصہ آدھا ہے ۔ مگر ان کا حقیقی حصہ مردوں سے زیادہ مقرر کیا گیا ہے ۔
اتفاق کی بات ہے کہ آثار اسلام کی طرف رجوع کرنے سے ہمیں اس نکتے کا سراغ ملتا ہے کہ مندرجہ بالا سوال اسلام کے شروع میں ہی لوگوں کے ذہن میں تھا اور وہ کبھی کبھار اس سلسلے میں رہبران اسلام سے سوالات بھی کر لیتے تھے ۔ جو جوابات ان بزرگان اسلام ( ائمہ اہل بیت (ع) ) نے اس سوال کے دئے ہیں ۔ غالبا ً وہ سب ایک ہی مضمون کے ہیں اور وہ یہ کہ :
خدا وند عالم نے زندگی کے اخراجات اور حق مہر مردوں کے ذمہ لگایا ہے ۔ اس بنا پر ان کا حصہ بھی زیادہ مقرر کیا گیا ہے ۔
کتاب ” معافی الاخبار “ میں حضرت علی بن موسیٰ (ع) رضا سے منقول ہے کہ آپ (ع) نے اس سوال کے جواب میں فرمایا :
یہ میراث میں عورتوں کا حصہ مردوں کی نسبت آدھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عورت کی شادی ہوتی ہے تو وہ کچھ نہ کچھ لیتی ہے اور مرد مجبور ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ دے ۔ اس کے علاوہ عورتوں کے اخراجات مردوں کے کندھے پر ہیں ۔ جبکہ عورت مرد کے اخراجات اور اپنے اخراجات سے بے فکر ہے ۔