منافقین کی بے بنیاد باتیں
الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۱۶۸
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مقتول بھائیوں کے بارے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ ہماری اطاعت کرتے تو ہرگز قتل نہ ہوتے تو پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اپنے دعوٰی میں سچےّ ہو تو اب اپنی ہی موت کو ٹال دو.
منافقین کی بے بنیاد باتیں
منافقین خود بھی جنگ احد سے کنارہ کش رہے اور دوسروں کے حوصلے کم کرتے رہے اور پھر مجاہدین واپس آئے تو انہیں سر زنش کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اگر تم ہماری بات مانتے تو تمہارے آدمی قتل نہ ہوتے ۔
مندرجہ بالا آیت میں قرآن ان کی اس بے بنیاد بات کا جواب دیتا ہے اور کہتا ہے :
الَّذینَ قالُوا لِإِخْوانِہِمْ وَ قَعَدُوا ۔۔۔
یعنی جنہوں نے جنگ سے کنارہ کشی کی اور اپنے بھائیوں سے کہا کہ اگر ہماری اطاعت کی ہوتی تو تم قتل نہ ہوتے ۔ ان سے کہیے : اگر تم آئندہ کے حوادث کی پیش بینی کر سکتے ہو تو اپنے آپ ہی سے موت دور کر لو ، اگر سچے ہو ۔
یعنی حقیقت میں تمہارا دعویٰ ہے کہ تم عالم غیب ہو اورآنے والے حوادث سے با خبر ہو ، تو ایسا دعویٰ کرنے والے شخص کو چاہیے کہ وہ موت کے علل و عوامل کی پیش بینی کرتے ہوئے انہیں بط کار کر دے ، کیا تم میں یہ قدرت و طاقت ہے ۔
پھر اگر تم میدان جہاد اور راہ افتخار میں قتل نہیں ہوتے تو کیا عمر جاوداں مل جائے گی اور کیا تم موت کو ہمیشہ کے لئے اپنے سے دور کر سکتے ہو ۔ جب تم موت کے مسلم قانون کو ختم نہیں کر سکتے تو پھر ذلت کے بستر پر کیوں مرتے ہو اور میدان جہاد میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے عزت سے جام شہادت نوش کیوں نہیں کرتے ۔
زیر نظر آیت میں ایک اور قابل غور نکتہ بھی ہے اور وہ یہ کہ مومنین کو بھائی کہا گیا ہے جبکہ مومن ہر گز منافق کا بھائی نہیں ہے ۔ در اصل یہ انہیں ایک قسم کی سر زنش ہے کہ تم تو مومنین کو اپنا بھائی سمجھتے تھے تو پھر ان حساس لمحوں میں ان کی حمایت سے دست کش کیوں ہو گئے ہو ۔ اسی لئے
” اخوانھم “ کے فورا بعد بلا فاصلہ لفظ ”قعدوا “ ( جنگ سے بیٹھ گئے ) آیا ہے ، تو کیا انسان برادری کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور پھر ایک دم اپنے بھائی کی حمایت چھوڑ کر بھی بیٹھ جاتا ہے ۔
۱۶۹۔ وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذینَ قُتِلُوا فی سَبیلِ اللَّہِ اٴَمْواتاً بَلْ اٴَحْیاء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ ۔
۱۷۰۔فَرِحینَ بِما آتاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ وَ یَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذینَ لَمْ یَلْحَقُوا بِہِمْ مِنْ خَلْفِہِمْ اٴَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لا ہُمْ یَحْزَنُونَ ۔
۱۷۱۔ یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّہِ وَ فَضْلٍ وَ اٴَنَّ اللَّہَ لا یُضیعُ اٴَجْرَ الْمُؤْمِنینَ ۔
ترجمہ
۱۶۹۔ راہ خدا میں قتل ہونے والوں کے بارے میں ہر گز گمان نہ کرو کہ وہ مرد ہ ہیں بلکہ وہ زندا ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے روزی پاتے ہیں ۔
۱۷۰۔ وہ خدا کی عطا کردہ فراواں نعمتوں پر خوش ہیں اور وہ ( مجاہد ) کہ جو ان سے پیچھے عہ گئے ہیں اور ان سے ابھی آ کر نہیں ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں (کیونکہ وہ اس جہان میں ان کے عظیم مراتب کو دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں ) کہ نہ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ ملال۔
۱۷۱۔ اور وہ خدا کی نعمت اور اس کے فضل سے( خوش حال و مسرور ہوتے ہیں ) اور (وہ دیکھتے ہیں کہ ) خدا (شہید ہونے والوں اور نہ شہید ہونے والے مجاہد ) مومنین کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔