Tafseer e Namoona

Topic

											

									  آخری فیصلہ کا مرحلہ

										
																									
								

Ayat No : 159-160

: ال عمران

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ۱۵۹إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ۱۶۰

Translation

پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردو- ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے. اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور وہ تمہیں چھوڑ دے گا تو اس کے بعد کون مدد کرے گا اور صاحبانِ ایمان تو اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں.

Tafseer

									فاذا عزمت فتوکل علیٰ اللہ 
مشورہ کرتے وقت نرم مزاجی اور محبت سے کام لینا چاہیے لیکن جب پختہ ارادہ کر لیا جائے تو اتنا ہی مضبوط بھی ہونا چاہیے اور اپنے آپ کو ہر قسم کے تردد اوراختلاف آراء سے دور رکھتے ہوئے مصمم ارادہ کر لینا چاہیے ۔ اسی کو قرآن مجید نے مندرجہ بالا آیت میں عزم سے تعبیر کیا ہے اور یہی تصمیم قاطع ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں جمع ( و شاورھم )کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے لیکن آخری فیصلہ پیغمبر اکرم کے ذمہ کر دیا گیا اور یہاں واحد کا صیغہ (عزمت) استعمال ہوا ہے ۔ جمع مفرد کا یہ فرق ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ اجتماعی معاملات کے مختلف پہلووٴں کا مل جل کر اور اجتماعی صورت میں جائزہ لینا چاہیے اور تحقیق کرنا چاہیے لیکن جب ایک چیز کو درست سمجھ لیا جائےتو پھر اس کے اجراء کے لئے ایک ہی ارادے کو کام میں لانا چاہیے ورنہ حرج مرج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ کیونکہ اگر ایک پروگرام پر کسی ایک سر پرست کی بجائے کسی رہبروں کے ذریعہ عمل در آمد ہو تو یقینی طور پر وہ اختلاف اور شکست سے دو چار ہوگا ۔ اسی بناء پر آج کی دنیا میں بھی مشورہ تو اجتماعی طور پرہوتا ہے لیکن فیصلہ کا نفاذ ایسی حکومتوں کے ذریعہ ہوتا ہے جس کے پرو گرام ایک شخص کے زیر نظر رہ کر انجام پاتے ہیں۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ زیر نظر آیت کہتی ہے کہ پختہ ارادہ کر تے ہوئے خدا پر توکل کرنا چاہیے۔ یہ اس لئے ہے تاکہ عمومی اسباب و وسائل فراہم ہو جانے کے بعد خدا کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا فرا موش نہ ہو جائے ۔ البتہ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مادی دنیا میں خدا کے عطا کردہ اسباب و وسائل کو کام میں نہ لائے ۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں منقول ہے کہ اکی مرتبہ ایک عرب نے ا)نے اونٹ کے پاوٴں نہیں باندھے تھے اور اسے محافظ کے بغیر چھوڑ دیا تھا اور اسے وہ خدا پر توکل کرنا سمجھتا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا :
اعقلھا و توکل 
یعنی پہلے اس کا پاوٴں باندھو اور پھر توکل کرو۔
یہاں آیت میں یہ مقصد ہے کہ انسان عالم مادی کی چار دیواری اور اپنی محدود قدرت و توانائی پر انحصار نہ کرے اور اپنی نگاہیں پروردگار کی حمایت و لطف پر لگائے رکھے ۔ یہ مخصوص توجہ انسان کو امن و سکون ، اطمینان اور عظیم روحانی تقویت سے ہمکنار کرتی ہے جو مشکلات کے عالم میں انسان کے لئے بہت موثر ہوتی ہے ۔
اس کی مزید تفصیل مسئلہ توکل اور عالم طبیعت سے استفادہ کرنے کے زیر عنوان انشاء اللہ سورہ طلاق کی آیت ۳ 
و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ۔کے ذیل میں پیش کی جائے گی۔
ان اللہ یحب المتوکلین
بعد والی آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ایمان کو صرف خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ کیونکہ خدا توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلام ہوتا ہے کہ توکل کا مر حلہ مکمل مشورہ کرنے اور تمام امکانی وسائل جو انسانی اختیار میں ہیں سے استفادہ کرنے کے بعد آتا ہے ۔