جس سے مشورہ کیا جائے اس کی ذمہ داری
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ۱۵۹إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ۱۶۰
پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردو- ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے. اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور وہ تمہیں چھوڑ دے گا تو اس کے بعد کون مدد کرے گا اور صاحبانِ ایمان تو اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں.
جس طرح اسلام میں مشورہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی پے اسی طرح ان افراد کے بارے میں احکام ہیں جن سے مشورہ کیا جاتا ہے مثلا یہ کہ خیر خواہی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔ مشورہ میں خیانت کرنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ یہ حکم غیر مسلموں کے لئے بھی ہے کہ وہ مشورہ طلب کریں تو ان سے کسی قسم کی خیانت نہ کی جائے اور جو صحیح رائے ہو وہی انہیں دی جائے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل شدہ ” رسالہ حقوق “ میں آپ نے فرمایا:
”و حق المستشیران علمت لہ رایاً اشرف علیہ وان لم تعلم ارسدتہ الی من یعلم وحق المشیر علیک ان لا تتھمہ فیما لا یوافقک من رایہ “
تجھ سے مشورہ کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اگر کوئی نظریہ رکھتے ہو تو اسے بتا دو اور اگر اس کام کے بارے میں تجھے علم نہیں تو اسے ایسے شخص کی طرف رہنمائی کرو جو جانتا ہے اور مشورے دینے والے کا حق تجھ پر ہے کہ جس نظریئے میں وہ تمہارا موافق نہیں ہے اس میں اس پر تہمت تراشی نہ کرو۔ 1#
1۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۱ صفحہ ۴۰۵۔