پرورش وتربیت کا میدان
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۱۳۹إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ۱۴۰وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ ۱۴۱أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ ۱۴۲وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ ۱۴۳
خبردار سستی نہ کرنا. مصائب پر محزون نہ ہونا اگر تم صاحب هایمان ہو تو سر بلندی تمہارے ہی لئے ہے. اگر تمہیں کوئی تکلیف چھولیتی ہے تو قوم کو بھی اس سے پہلے ایسی ہی تکلیف ہوچکی ہے اور ہم تو زمانے کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے ہیں تاکہ خدا صاحبانِ ایمان کو دیکھ لے اور تم میں سے بعض کو شہدائ قرار دے اور وہ ظالمین کو دوست نہیں رکھتا ہے. اور خدا صاحبان هایمان کو چھانٹ کر الگ کرنا چاہتا تھا اور کافروں کو مٹا دینا چاہتا تھا. کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم جنّت میں یوں ہی داخل ہوجاؤ گے جب کہ خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو بھی نہیں جانا ہے. تم موت کی ملاقات سے پہلے اس کی بہت تمنّا کیا کرتے تھے اور جیسے ہی اسے دیکھا دیکھتے ہی رہ گئے.
پرورش وتربیت کا میدان
ولیمحص اللہ الذین اٰمنوا۔۔۔۔۔۔
” لیمحص“ تمحیص کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کے ہر نقص وعیب سے پاک و صاف کرنا ”یمحق “مادہ محق (بروزن مرد)سے ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا آہستہ آہستہ کم ہونا ۔ اسی مناسبت سے مہینہ کی آخری رات کو ”محاق “ کہا جاتا ہے کیونکہ آہستہ آہستہ چاند کی روشنی کم اور ختم ہو جاتی ہے ۔
اس آیت میں جنگ احدکے ایک اورفطری نتیجہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس قسم کی شکستیں جماعتوں کی کمزوری اور عیوب کے پہلو واضح کرتی ہےں اور ان عیوب کو دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا چاہتا تھا کہ اس معرکہ حق باطل میں با ایمان افراد کو خالص قرار دے اور انہیں کمزوری کے نقاط کی نشاندہی کرے تاکہ وہ آئندہ کی اس قسم کی آزمائش کی کھٹالی سے گذر کر اپنی ہوشیاری کا اندازہ لگا لیں جیسا کہ حضرت علی (ع) کا ارشاد ہے :
”فی تقلب الاحوال یعلم جواھر الرجال “
حالات کی دگرگونی اور زندگی کے کٹھن حوادث میں لوگوں کے جوہر کا پتہ چلتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں سے با خبر ہوتے ہیں ۔یہ وہ مقام ہے جہاں بعض شکستیں ایسی اصلاح پر ہوتی ہیں کہ جن کے اثرات انسانی معاشروں میں ظاہری خواب اور کامیابیوں سے کئی درجے زیادہ ہوتی ہیں۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ تفسیر ”المنار “کا موٴلف اپنے استادمصر کے عظیم مفتی محمد عبدہ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اگر مجھے میدان احد میں فتح و شکست کا مختار قرار دیا جاتا تو میں اس میدان میں شکست کو ترجیح دیتا کیونکہ یہ شکست تاریخ اسلام میں اصلاح کنندہ عامل بن گئی ۔
”و یمحق الکافرین “
یہ جملہ در حقیقت پہلے جملہ کا نتیجہ ہے کیونکہ جب مومنین حوادث کی کھٹالی میں مضبوط اور پاک ہو گئے تو ان میں کفر و شرک کی برائی کو دور کرنے اور اپنے معاشرہ کو ان گندگیوں سے پاک کرنے کی کا فی آمادگی پیدا ہو گئی یعنی پہلے خود پاک ہونا چاہیے اور پھر دوسروں کو پاک کرنا چاہیے ۔ حقیقت میں جس طرح کہ چاند اپنی جلوہ گری کے ساتھ آہستہ آہستہ کم روشن ہو جاتا ہے اور وہ حالت محاق میں چلا جاتا ہے ، اسی طرح کفر و شرک اور ان کے حامیوں کی عظمت مسلمانوںکی مضبوطی پاکیزگی سے زوال پذیر ہو گئی ۔
اٴَمْ حَسِبْتُمْ اٴَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللَّہُ الَّذینَ جاہَدُوا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصَّابِرینَ ۔
قرآن مجید واقعہ احد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے ایک فکری اشتباہ کی تصحیح کرتا ہے کہ تم یہ خیال کرتے ہو کہ جہاد میں استقامت کا مظاہرہ کئے بغیر بہشت بریں میں قیامت پذیر ہو جاوٴ گے کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس معنوی سعادت کے اندر داخل ہونا صرف مسلمان کہلوانے یا عمل کے بغیر صرف عقیدہ سے ممکن ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو معاملہ نہایت سہل ہوتا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے اور جب تک حقیقی عقائد کی میدان عمل میں عکاسی نہ ہو کوئی شخص بھی ان سعادتوں سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا ۔ آزمائش کی منزل پر (حق و باطل کی ) صفیں ایک دوسرے سے ممتاز ہو جاتی ہیں اور مجاہد ومہاجر بے قیمت و بے ارزش افراد سے ممتاز نظر آتے ہیں ۔