Tafseer e Namoona

Topic

											

									  یہ گروہ کیسے فلاح پائے گا

										
																									
								

Ayat No : 123-127

: ال عمران

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ۱۲۳إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ ۱۲۴بَلَىٰ ۚ إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ۱۲۵وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ۱۲۶لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ ۱۲۷

Translation

اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی ہے جب کہ تم کمزور تھے لہذا اللہ سے ڈرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ. اس وقت جب آپ مومنین سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں ہے کہ خدا تین ہزار فرشتوں کو نازل کرکے تمہاری مدد کرے. یقینا اگر تم صبر کرو گے اور تقوٰی اختیار کرو گے اور دشمن فی الفور تم تک آجائیں گے تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوں گے. اور اس امداد کو خدانے صرف تمہارے لئے بشارت اور اطمینانِ قلب کا سامان قرار دیا ہے ورنہ مدد تو ہمیشہ صرف خدائے عزیز و حکیم ہی کی طرف سے ہوتی ہے. تاکہ کفار کے ایک حصّہ کو کاٹ دے یا ان کو ذلیل کردے کہ وہ رسوا ہوکر پلٹ جائیں.

Tafseer

									اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں بہت اختلاف ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ یہ آیت جنگ احد کے بعد نازل ہوئی اور اس کے واقعات سے متعلق ہے ۔ سابقہ آیات بھی اس کی تائید کرتی ہیں ۔ البتہ آیت کی تفسیر میں دوباتیں توجہ طلب ہیں پہلی یہ کہ آیت مستقل ایک جملہ ہے لہٰذا ”اویتوب“ کا معنی ”الاّ ان یتوب علیھم“ہے
اس آیت کا مطلب یو بنتا ہے کہ ان کے انجام کار کے بارے میں تم کچھ نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا انہیں بخش دے یا اس ظلم کی وجہ سے انہیں سزا دے اور لفظ ”انہیں “ سے مراد کفار ہیں ، جنہوں نے مسلمانوںکو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ۔ حتیٰ کہ انہوں نے پیغمبر اکرم کے دندان مبارک کو شہید کیا اور جبیں مارک کو زخمی کر دی یا وہ مسلمان مراد ہیں جنہوں نے میدان کارزار سے فرار کیا اور جنگ کے اختتام پر نادم و پشیماں ہوئے اور آپ معافی طلب کی ۔ آیت بتلا رہی ہے کہ ان کے عفو و بخشش یا سزا و عذاب خدا کے ہاتھ میں ہے اور پیغمبر اکرم حکم خدا کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتے ۔
دوسری تفسیر اس طرح کی گئی ہے ”لیس لک من امر شیءٍ “جملہ معترضہ ہے (جس کا پہلے ار بعد والے جملوں سے ربط نہ ہو ) اور جملہ ” او یتوب علیھم “ کا عطف ”او یکبتھم “ پر ہے ۔ اس صورت میں دونوں آیات کا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا کامیابی کے اسباب تمہارے قبضہ میں دے دیگا اور کفار کے لئے چار قسم کا انجام مقرر کرے گا یس لشکر مشرکین کے ایک حصہ کو نیست و نابود کر دے گا یا انہیں کسی ذریعے سے واہس جانے پر مجبور کرے گا یا انہیں شائشتگی اور توبہ کی صورت میں بخش دے گا اور یا انہیں ظلم کی وجہ سے سزا دے گا ۔ خلاسہ یہ کہ ان کے ہر گروہ کے ساتھ عدالت و حکمت کا برتاوٴ روا رکھے گا اور تم ان کے بارے میں اپنی طرف سے کسی قسم کا اقدام نہیں کر سکتے ۔
اس آیت کی شان نزول روایات میں مختلف انداز سے پیش کی گئی ہے ۔ ان میں سے یہ بھی ہے کہ جب جنگ احد میں آنحضرت کے دندان مبارک شہید ہوئے اور جبین مبارک زخمی ہوگئی اور مسلمانوں کو بہت سخت نقصان پہنچا تو پیغمبر کفار کے امروز وفردا کے متعلق سوچنے لگے کہ یہ لوگ کس طرح راہِ ہدایت پر آئیں گے اور فرمایا :
”کیف یفلح قوم فعلوا ھٰذا بنبیھم و ھو یدعو ھم الیٰ ربھم “
یہ گروہ کیسے فلاح پائے گا جس نے اپنے پیغمبر سے یہ سلوک کیا جبکہ وہ انہیںخدا کی طرف دعوت دیتا ہے ۔
اس مقام پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور پیغمبر کو تسلی و تشفی دی گئی کہ آپ ان کی ہدایت کے جوابدہ نہیںہیں بلکہ آپ کی ذمہ داری صرف تبلیغ ہے ۔