یہودیوں کی عبر ت ناک داستان
لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ ۱۱۱ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ ۱۱۲
یہ تم کو اذیت کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے اور اگر تم سے جنگ بھی کریں گے تو میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور پھر ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی. ان پر ذلّت کے نشان لگادئیے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدہ کی پناہ مل جائے .یہ غضبِ الٰہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی. یہ اس لئے ہے کہ یہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیائ کو قتل کرتے تھے. یہ اس لئے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے.
یہودیوں کی تاریخ گذشتہ آیات کے مطالب و مفاہیم کی مکمل تائید کرتی ہے اور ان کی موجودہ حالت بھی اس کی بشرت دیتی ہے ۔ ان آیات میں ضُرِبَتْ عَلَیْہِم الذلةة(ان پر مہر ذلت لگ چکی ہے )تشریعی حکم نہیں ہے جیسا کہ بعض مفسرین اس کے قائل ہیں بلکہ یہ تکوینی ہے اور تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو قوم گناہوں میں ڈوبی ہوئی ہو اور جن کا پروگرام دوسروں کے حقوق پر ہاتھ ڈالنا اور بشریت کے رہنماوٴں کو قتل کرنے پر مشتمل ہو ان کا انجام کر یہی ہو گا ، مگر یہ کہ وہ اپنی طرزِ زندگی میں تبدیلی پیدا کریں اور اس راستہ سے پلٹ آئیں اور یا دوسرے لوگوں رابطہ قائم کرکے چند روزہ زندگی گذار لیں ۔ جو واقعات اس دور میں اسلامی ممالک میںرونما ہو رہے ہیں یعنی مسلمانوں کے مقابلہ میں صہیونیت کا ایک خاص مقام حاصل کرنا ، انہیں دوسروں کی مالیت حاصل کرنا اور بہت سے دیگر عوامل جن کی وجہ سے انہیں مقام حاصل ہے ، یہ سب امور اس حقیقت کے شاہد ہیں جو ان آیات سے معلوم ہوتی ہے۔
شاید گزشتہ تلخ تجربات اور ان کی تاریخ کی راہ کو بدل دیا ہے یہ باعث نہیں کہ وہ اپنے پروگرام میں تجدید نظر کریں اور وہ دیگر اقوام کے ساتھ صلح و آشتی کے ساتھ پیش آئیں اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرکے ان کے ساتھ صلح آمیز زندگی گذاریں ۔