Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔ داستان ِ فیل کے اہداف

										
																									
								

Ayat No : 1-5

: الفيل

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ۱أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ۲وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ۳تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ ۴فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ ۵

Translation

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیاہے. کیا ان کی چال کو بے کار نہیں کردیا ہے. اور ان پر اڑتی ہوئی ابابیل کو بھیج دیا ہے. جو انہیں کھرنجوں کی کنکریاں ماررہی تھیں. پھر انہوں نے ان سب کو چبائے ہوئے بھوسے کے مانند بنادیا.

Tafseer

									آگے آنے والی سورت ( سورہٴ لایلاف) سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ سورہٴ فیل کا ایک ہدف قریش پر خدا کی عظیم نعمتوں کی یاد آوری ہے تاکہ انہیں یہ بتا دے کہ اگر پروردگار کا لطف نہ ہوتا تو نہ اس مقدس مرکز یعنی مکہ و کعبہ کے آثار ہوتے اور نہ ہی قریش ہوتے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اسی طرح کبر و غرور کی سواری سے نیچے اتر آئیں اور پیغمبر اکرم  کی دعوت کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ۔ 
دوسری طرف یہ ماجرا ، جو پیغمبراکرم  کے میلاد کے قریب قریب ساتھ واقع ہوا تھا ، حقیقت میں اس عظیم ظہور کا پیش خیمہ تھا اور اس قیام کی عظمت کا پیام لانے والا تھا۔ اور یہ وہی چیز ہے جسے مفسرین نے ” ارھاص“ سے تعبیر کیا ہے ۔ ۱
اس واقعہ کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ یہ ساری دنیا جہان کے سر کشوں کے لیے ایک تنبیہ ہے ، چاہے وہ قریش ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور ہوں ، کہ وہ جان لیں کہ وہ ہر گز پروردگار کی قدرت کے مقابلہ میں نہیں ٹھہرسکتے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ وہ خیال ِ خا، کو اپنے سے سے نکال دیں ، اس کا حکم مانیں اور حق و عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ۔ 
چوتھا مقصد اس عظیم گھر کی اہمیت کو ظاہر کرنا ہے کہ جب ” کعبہ“ کے دشمنوں نے اس کو نابود کرنے کا منصوبہ بنا یا ، اور وہ اس ابراہیمی سر زمین کی مرکزیت کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتے تھے ، تو خدا نے ان کی اس طرح سے گوشمالی کی کہ ساری دنیا کے لیے باعث عبرت بن گئی اور اس مقدس مرکز کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا۔ 
اور پانچواں مقصد یہ ہے کہ ، وہ خدا جس نے اس سر زمین ِ مقدس کی امنیت کی بارے میں ابراہیم  خلیل کی دعا کو قبول کیا تھا ، اور اس کی ضمانت دی تھی ، اس نے اس ماجرے میں اس بات کی نشان دہی کردی ہے کہ اس کی مشیت یہی ہے کہ یہ توحید و عبادت کا مرکز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مرکز امن رہے ۔

 

۱۔” ارھاص“ ان معجزات کے معنی جو پیغمبرکے قیام سے قبل واقع ہوں اور اس کی دعوت کے لیے زمین ہموار کرنے والے ہوں ۔ یہ لفظ اصل میں بنیاد گزاری اور پہلا سنگِ بنیاد رکھنے کے معنی میں ہے جسے دیوار کے نیچے رکھتے ہیں ، اور آمادہ ہونے اور ( کھڑے ہونے )کے معنی میں بھی آیا ہے ۔