۱۔ کبر و غرور بڑے برے گناہوں کا سرچشمہ ہے
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ ۱الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ۲يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ۳كَلَّا ۖ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ۴وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ ۵نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ ۶الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ ۷إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ ۸فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ۹
تباہی اور بربادی ہے ہر طعنہ زن اور چغلخور کے لئے. جس نے مال کو جمع کیا اور خوب اس کا حساب رکھا. اس کا خیال تھا کہ یہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا. ہرگز نہیں اسے یقینا حطمہ میں ڈال دیا جائے گا. اور تم کیا جانو کہ حطمہ کیا شے ہے. یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے. جو دلوں تک چڑھ سسجائے گی. وہ آگ ان کے اوپر گھیر دی جائے گی. لمبے لمبے ستونوں کے ساتھ.
” اپنے آپ کو بڑاخیال کرنا ایسی عظیم بلا ہے جو بہت سے گناہوں کی اصل اور بنیاد قرار پاتی ہے۔ خدا سے غفلت، نعمتوں کا کفران ، عیاشی اور ہوس بازی میں غرق ہونا ، دوسروں کی تحقیر و تذلیل ، مومنین کا مذاق اڑانا ، اسی صفت رذیلہ کے منحوس اور برے اثرات ہیں ۔
کم ظرف لوگ جب کسی مقام و منصب یا کسی اچھی منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ ایسے کبر و غرور میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ کسی دوسرے کے لیے کسی قدر و قیمت کے قائل ہی نہیں ہوتے۔ اور یہی چیز ان کے معاشرے سے جدا ہونے اور معاشرے کے ان سے الگ ہونے کا سبب بن جاتی ہے ۔
وہ اپنے ہی تصورات و خیالات کی دنیا میں ڈوبے رہتے ہیں اور خود کو باقیوں سے علحٰیدہ کوئی اور مخلوق خیال کرنے لگتے ہیں ، یہاں تک کہ اپنے آپ کو مقربان خدا میں بھی شمار کرنے لگتے ہیں، اور اسی وجہ سے دوسروں کی عزت و آبروبلکہ ان کی جان تک بھی ان کے نظر میں بے قدر و قیمت ہو جاتی ہے ، اور وہ ” ھمز“ و ” لمز“ یادوسروں کی عیب جوئی اور مذمت میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یوں اپنے خیال میں وہ اپنی عظمت میں اضافہ کرتے ہیں ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بعض روایات میں اس قسم کے افراد کو عقرب( بچھو) سے تشبیہ دی گئی ہے ،اور اگر چہ بچھو کا ڈنک مارنا کسی کینہ کی وجہ سے نہیں ہوتا، لیکن ان کا ڈنک مارنا کینہ پروری کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:” میں نے شب معراج دوزخیوں کے ایک گروہ کر دیکھا کہ ان کے پہلو وٴں کے گوشت الگ کرکے انہیں کھلاتے تھے ۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو انہوں نے کہا :
” ھٰوٴلاء الھمازون من امتک ، المازوں ! “:
” یہ آپ کی امت میں سے عیب جوئی کرنے والے اور استہزاء کرنے والے ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے ، ہم نے سورہ حجرات کی آیات کے ذیل میں اس سلسلہ میں تفصیلی بحث کی ہے ۔