۳۔ سب لوگ دوزخ کا مشاہدہ کریں گے
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ۱حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۲كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ۳ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ۴كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ۵لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ۶ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ۷ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ۸
تمہیں باہمی مقابلہ کثرت مال و اولاد نے غافل بنادیا. یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی. دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا. اور پھر خوب معلوم ہوجائے گا. دیکھو اگر تمہیں یقینی علم ہوجاتا. کہ تم جہنمّ کو ضرور دیکھو گے. پھر اسے اپنی آنکھوں دیکھے یقین کی طرح دیکھو گے. اور پھر تم سے اس دن نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا.
” لترون الجحیم“ کے جملہ کی دو تفسیریں ہیں پہلی یہ کہ اس سے مراد آخرت میں دوزخ کا مشاہدہ کرنا ہے جو کفارکے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور یایہ تمام جن و انس کے لیے عام ہے ، کیونکہ قرآن کی بعض آیات کے مطابق سب کو ہی جہنم کے پاس سے گزرنا پڑے گا۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد اسی عالم دنیا میں شہود قلبی ہے ، اور اس صورت میں یہ جملہ قضیہ شرطیہ کا جواب ہے ، فرماتا ہے : ” اگر تم “ ” علم الیقین “ رکھتے ہوتے تو ” جہنم“ کو اسی عالم میں دل کی آنکھ سے مشاہدہ کرلیتے “ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہشت و دوزخ اب بھی خلق شدہ موجود ہیں، اور وجودِ خارجی رکھتی ہیں ۔
لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ پہلی تفسیر بعد والی آیات کے ساتھ ، جو روز قیامت کی بات کررہی ہیں ، زیادہ زیاہ مناسب ہے ، اس بناء پر یہ ایک قطعی اور غیر مشروط قضیہ ہے ۔