اس سورہ کی قسموں اور ا س کے ہدف کے درمیان ربط
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا ۱فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا ۲فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا ۳فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا ۴فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا ۵إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ ۶وَإِنَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ لَشَهِيدٌ ۷وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ ۸أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ ۹وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ ۱۰إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَخَبِيرٌ ۱۱
فراٹے بھرتے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کی قسم. جوٹا پ مار کر چنگاریاں اُڑانے والے ہیں. پھر صبحدم حملہ کرنے والے ہیں. پھر غبار جنگ اڑانے والے نہیں. اور دشمن کی جمعیت میں در آنے والے ہیں. بے شک انسان اپنے پروردگار کے لئے بڑا ناشکرا ہے. اور وہ خود بھی اس بات کا گواہ ہے. اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے. کیا اسے نہیں معلوم ہے کہ جب مفِدوں کو قبروں سے نکالا جائے گا. اور دل کے رازوں کو ظاہر کردیا جائے گا. تو ان کا پروردگار اس دن کے حالات سے خوب باخبر ہوگا.
اس سورہ کے سلسلہ میں جو سوالات سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجاہدین کے گھوڑوں کی قسم اور ” ان الانسان لربہ لکنود“کے جملہ کے درمیان کیا ربط ہے ؟ کیونکہ قرآن کی آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ قسموں اورمقسم بہ
(جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے ) کے درمیان ایک قسم کا ربط موجود ہوتا ہے ، اور اصولی طور پر قرآن کی وضاحت و بلاغت بھی اس قسم کے مطلب کا اقتضا کرتی ہے ۔
زیربحث آیات میں ممکن ہے اس طرح کا ربط ہو کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایسے ایثار کرنے والے انسان بھی موجود ہیں جو جہاد کے راستہ میں بے پرواہ ہو کر پیش رفت کرتے ہیںاور کسی قسم کی فدا کاری میں کوتاہی نہیںکرتے، اور اپنی جان و مال خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں لیکن بعض لوگ اتنے بخیل اور ناشکرے کیوں بن جاتے ہیں کہ نہ تو وہ حق تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلہ میں خدا کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی راہ میں ایثار کرتے ہیں ؟
یہ ٹھیک ہے کہ قسم تو گھوڑوں ہی کی کھائی گئی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ وہ مجادہدین کے لئے ایک آلہ ہیں ، اور حقیقت میں مجاہدین کے جہاد کی قسم کھائی گئی ہے ۔( اور اسی طرح اگر یہ حاجیوں اور خانہ خدا کے زائرین کے اونٹوںکی قسم ہو)۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ربط اس طرح سے حاصل ہوتا ہے کہ یہ جانور حق تعالیٰ کی راہ میں سر عت کے ساتھ جاتے ہیں ۔ پس اے انسان تو کیوں اس کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کرتا جب کہ تو اشرف المخلوقات ہے اور اس کے لائق ہے ؟
لیکن پہلی مناسبت زیادہ واضح ہے