Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ولایت تکوینی

										
																									
								

Ayat No : 48-49

: ال عمران

وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ ۴۸وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۴۹

Translation

اور خدا اس فرزند کو کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا. اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکهِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکهِ خدا سے مفِدوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو.

Tafseer

									اس آیت اور اس سے مشابہ دیگر آیات جن کے بارے میں ہم انشاء اللہ اشارہ کریں گے ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے افراد اور اولیاء اللہ اللہ کے فرمان اور اذن سے بوقت ضرورت عالم تکوینی و اافرینش میں تصرف کرسکتے ہیں اور خلاف معمول اور طبیعی قوانین سے ہٹ کر کچھ واقعات کو جنم دے سکتے ہیں ” ابرء “ شفا دیتا ہوں (” حی الموتی ٰ “) ( مردوں کو زندہ کرتا ہوں ) اور اس قسم کے دیگر الفاظ جو فعل متکلم کی صورت میں ذکر ہوئے ہیں، اس بات کی دلیل ہیں کہ اس قسم کے افعال خود پیغمبروں سے صادر ہوتے ہیں اور ان عبارات کو انبیاء کی دعائیں قرار دینا بلا دلیل دعوی ٰہے ۔
ان عبارات کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ وہ عالم تکوینی میں تصرف کرتے تھے اور ان واقعات کو عالم وجود میں لاتے تھے ۔ 
زیادہ سے زیادہ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ کوئی شخص یہ تصور نہ کرے کہ خڈا کے انبیاء و اولیاء ذاتی طور پر صاحب استقلال تھے اور ان کی کوئی قدرت خدا کی قدرتِ خلقت کے مقابل تھی نیز دوگانہ پرستی کے احتمال کو بر طرف کر نے کے لئے چند مواقع پر ” باذن اللہ “۔ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں

( محل بحث آیت میں دو مرتبہ اور سورہ مائدہ کی آیت ۱۱۰(ع) میں چار مرتبہ ” بان اللہ “ کا تکرار ہے ) ۔ 
ولایت تکوینی سے بھی اس کے علاوہ کچھ مراد نہیں کہ انبیاء اور آئمہ علیہم السلام ضرورت کے وقت اذن پروردگار سے عالم خلقت میں تصرفات کرسکتے ہیں اور یہ چیز ولایت تشریعی یعنی عوام پر حکومت ، قوانین کی نشر و اشاعت اور براہ راست دعوت و ہدایت کرنے سے بالاتر ہے ۔ 
جو کچھ کہا جا چکا ہے اس سے ان لوگوں کا جواب بھی اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے جو مردان خدا کی ولایت تکوینی کے منکر ہو جاتے ہیں اور اسے شرک کی ایک قسم سمجھتے ہیں کیونکہ کوئی شخص بھی حضرات انبیاء اور آئمہ علیہم السلام کو خدا کے مقابلے میں صاحب قدرت نہیں سمجھتا ۔ وہ حضرات یہ سب کام خدا کے فرمان اور اس کی اجازت سے انجام دیتے ہیں لیکن ولایت تکوینی کے منکر یہ کہتے ہیں کہ انبیاء کا کام صرف تبلیغ احکام اورخدا کی طرف دعوت دینا ہے اور کبھی کبھی وہ بعض امور تکوینی کی انجام دہی کے لیے دعا سے استفادہ کرتے ہیںاوراس سے زیادہ ان سے کوئی کام نہیں ہو سکتا حالانکہ مندرجہ بالاآیت اور اس کے مشابہ دیگر آیات کچھ اور کہتی ہیں ۔ 
ضمنی طور پر مندرجہ بالا اایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم انبیاء کے بہت سے معجزات تو ایسے افعال ہیں جو خود انہی کے ذریعے انجام پاےتے ہیں اگر چہ وہ فرمان خدا کے تحتاور خدائی طاقت کی مدد سے ہوتے ہیں ، اس لئے حقیقت میں کہا جاسکتا ہے کہ معجزہ انبیاء کا فعل بھی ہے کیونکہ ان کے ذریعے انجام پاتا ہے اور خدا کا کام بھی ہے کیونکہ پروردگار کی قدرت سے مدد طلب کرتے ہوئے اور ا س کے اذن سے انجام پاتا ہے ۔1

۵۰۔وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنْ التَّوْرَاةِ وَلِاٴُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَجِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِِ۔
ترجمہ 
۵۰۔ اور میں تصدیق کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں اس کی جو تورات میں مجھ سے پہلے تھا اور ( میں آیا ہوں تاکہ ) بعض چیز یں جو ( ظلم و گناہ کی وجہ سے) تم پر حرام تھیں (جیسے بعض چوپایوں کا گوشت اور مچھلیاں ) انہیں حلال کروں اور تمہارے پرورداگر کی طرف سے تمہارے لیے نشانی لایا ہوں ۔ اس لیے تم خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔


1.لہٰذا یہی صورت آئمہ ٴ ہدیٰ علیہم السلام کے بارے میں ہے ( مترجم ) ۔