Tafseer e Namoona

Topic

											

									  حضرت مریم

										
																									
								

Ayat No : 31-32

: ال عمران

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۳۱قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ ۳۲

Translation

اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے. کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے.

Tafseer

									اس آیت سے حضرت مریم اور ان کے آباوٴ اجدادکی داستان شروع ہوتی ہے ۔ 
” اصطفیٰ “ لغت کے لحاظ سے ” صفو“ ( بر وزن ” عفو -) سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ” خالص چیز “ اہل عرب صاف و شفاف پتھرکو بھی ”صفا “ خالص اور پاکیزہ ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں ، اس بناء پر ” اصطفاء “ کا معنی ہے ” خالص چیز کے ایک حصّے کو منتخب کرنا “۔ 
قرآن حکیم مندرجہ بالا آیت میں کہتا ہے : خدا نے آدم ، نوح ، خاندان ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہانوں پر منتخب کرلیا ہے ۔ یہ چناوٴ ممکن ہے تکوینی طور پر بھی ہو اور تشریعی اعتبار سے بھی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی خلقت کو شروع ہی سے ممتاز قرار دیا ہے اگر چہ اس امتیاز کے باوجود راہ حق کے انتخاب میں مجبور نہ تھے بلکہ اپنے ارادہ اور اختیار سے یہ راستہ طے کررہے تھے لیکن ان کی اس مخصوص خلقت و آفرینش نے ان میں نوع بشر کی ہدایت کی صلاحیت پیدا کردی تھی اور پھر فرمان خدا کی اطاعت ، تقویٰ و پرہیز گاری اور انسانوں کی راہنمائی کے راستے میں جد و جہد کرنے کی وجہ سے ایک طرح کا اکتسابی امتیاز بھی انھیں حاصل ہوگیا جو ان کے ذاتی امتیاز سے مل گیا اور وہ بر گزیدہ انسانوں کی حیثیت سے ظاہر ہوئے ۔