١طلاق ِ رجعی کے احکام
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ۴ذَٰلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا ۵أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ۶لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ ۖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ۷
اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اگر ان کے یائسہ ہونے میں شک ہو تو ان کا عدہ تین مہینے ہے اور اسی طرح وہ عورتیں جن کے یہاں حیض نہیں آتا ہے اور حاملہ عورتوں کا عدہ وضع حمل تک ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے امر میں آسانی پیدا کردیتا ہے. یہ حکم خدا ہے جسے تمہاری طرف اس نے نازل کیا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کی برائیوں کو دور کردیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ کردیتا ہے. اور ان مطلقات کو سکونت دو جیسی طاقت تم رکھتے ہو اور انہیں اذیت مت دو کہ اس طرح ان پر تنگی کرو اور اگر حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک انفاق کرو جب تک وضع حمل نہ ہوجائے پھر اگر وہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو اور اسے آپس میں نیکی کے ساتھ طے کرو اور اگر آپس میں کشاکش ہوجائے تو دوسری عورت کو دودھ پلانے کا موقع دو. صاحبِ وسعت کو چاہئے کہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس کے رزق میں تنگی ہے وہ اسی میں سے خرچ کرے جو خدا نے اسے دیا ہے کہ خدا کسی نفس کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا گیا ہے عنقریب خدا تنگی کے بعد وسعت عطا کردے گا.
ہم بیان کرچکے ہیں کہ طلاق رجعی وہ ہے کہ جس میں شوہر عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے جس وقت چاہے رجوع کرسکتاہے ، اورمیاں بیوی کے رشتہ کوبحال کرسکتاہے ، اوراس میں کسِی نئے عقد کی ضرورت نہیں ہوتی ،قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ رجُوع کم سے کم بات اور عمل سے بھی حاصل ہوسکتا ہے کہ جوباز گشت کی علامت ہو۔
بعض احکام جواوپروالی آیات میں بیان کیے گئے ہیں، جیسے نفقد ومسکن کے احکام ، وہ طلاق ِ رجعی کی عدّت کے ساتھ مخصُوص ہیں .اِسی طرح عدّت کی حالت میں عورت کا اپنے شوہر کے گھر سے نہ نکلنے کامسئلہ بھی ہے ،لیکن طلاق بائن یعنی وہ طلاق جوقابلِ رجُوع نہیں ( مثلاً تیسری طلاق) تواس میں اوپر والے احکام کاوجود نہیں ہے ۔
صرف حاملہ عورت کے بارے میں وضع حمل کے وقت تک نان ونفقہ اور مسکن کاحق ثابت ہے ۔
لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذالک امراً ( تونہیں جانتاشاید خداکوئی نئی وضع و کیفیّت پیدا کردے ) کی تعبیر بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ سب یا اوپر واولے احکام کا ایک حصّہ طلاق رجعی کے ساتھ مربُوط ہے (۱)
۱۔ مزید وضاحت کے لیے فقہ کی کتابوں منجملہ "" جواہر الکلام "" جلد٣٢ صفحہ ١٢١ کی طرف رجوع کریں ۔