Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ١۔ تین اہم اسلامی اصول

										
																									
								

Ayat No : 33-41

: النجم

أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ ۳۳وَأَعْطَىٰ قَلِيلًا وَأَكْدَىٰ ۳۴أَعِنْدَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَىٰ ۳۵أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ ۳۶وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ ۳۷أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۳۸وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ۳۹وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ۴۰ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ ۴۱

Translation

کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ہے جس نے منہ پھیر لیا. اور تھوڑا سا راسِ خدا میں دے کر بند کردیا. کیا اس کے پاس علم غیب ہے جس کے ذریعے وہ دیکھ رہا ہے. یا اسے اس بات کی خبر ہی نہیں ہے جو موسٰی علیھ السّلام کے صحیفوں میں تھی. یا ابراہیم علیھ السّلام کے صحیفوں میں تھی جنہوں نے پورا پورا حق ادا کیا ہے. کوئی شخص بھی دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے. اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے. اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی. اس کے بعد اسے پورا بدلہ دیا جائے گا.

Tafseer

									اوپر والی آ یات میں اسلام کے تین مسلم اصولوں کی طرف اشارہ ہواہے ،جوگز شتہ آسمانی کتابوں میں بھی مسلم اصول کے عنوان سے پہچانے گئے ہیں ۔
الف: ہرشخص اپنے گناہوں کامسئول اور جوابدہ ہے ۔
ب:آخرت میں ہرشخص کاحصہ اس کی سعی وکوشش ہی ہے ۔
ج: خدا ہرشخص کواس کے عمل کے مقابلہ میں پوری جزادے گا ۔
اور اس طرح قرآن بہت سے اوہام اورخرافات پرجوعام لوگوں میں پائے جاتے ہیں یابعض مذاہب میں وقتی طورپر ایک عقیدہ کی صورت میں آ گئے ہیں، خط ِ بطلان کھینچ رہاہے ۔
قرآن اس طریقہ سے نہ صر ف مشر کی عرب کے عقیدہ کی جوزمانہ جاہلیت میں رکھتے تھے کہ ایک انسان دوسرے کے گناہوں کواپنے ذمہ لے سکتاہے،نفی کررہاہے ،بلکہ اس مشہور اعتقاد پر بھی ،جوعیسائیوں کے درمیان رائج تھا اوراب بھی ہے ،کہ خدانے اپنے بیٹے مسیح کودنیامیں اس لیی بھیجا تاکہ وہ سولی پرچڑھ جائے اور آزاد وتکلیف اٹھائے اور گنہگاروں کے گناہ کابوجھ اپنے کندھے پر لے لے ، خط تنسیخ کھینچ رہاہے ۔
اسی طرح پادریوں کے ایک گروہ کے برے اعمال کی جوقرون وسطی میں مغفرت نامے اوراستحقاق بہشت کے پروانے بیچاکرتے تھے اورموجودہ زمانہ میں بھی گناہ بخشی کے مسئلہ کوجاری رکھے ہوئے ہے مذمت کرتاہے ۔
عقل کی منطق بھی اسی چیز کاتقاضا کرتی ہے کہ ہرشخص اپنے اعمال کاذمہ دار ہے ،اوراپنے ہی اعمال سے نفع پائے گا ۔
یہ اسلامی عقیدہ اس بات کی سبب بنتاہے ،کہ انسان خرافات کی طرف پناہ لینے ، یااپناگناہ کسی اورکی گردن میں ڈالنے کے بجائے ، اعمال خیر کے لیے سعی و کوشش اورجدوجہد کرے ،اور گناہ سے پرہیزکرے ، اور جب کبھی اس سے کوئی لغزش ہوجائے اوراس سے کوئی خط سر زد ہوجائے توواپس لوٹے اور توبہ کرے اور تلافی مافات کرے ۔
انسانوں میں اس تربیتی عقیدہ کی تاثیر مکمل طورپر واضح اورناقابل انکارہے ،جیساکہ زمانہ جاہلیت کے ان مخرب عقائد کااثربھی کسی سے پوشیدہ نہیںہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ یہ آ یات آخرت کے لیے سعی و کوشش اور دوسرے گھرمیں اس کا اجر وپاداش مشاہدہ کرنے کوبیان کر رہی ہیں، لیکن اس کامدرک اوراصلی معیار دنیاکو بھی اپنے اندر لے لیتاہے ،اس معنی میں کہ اہل ایمان کودوسروںکے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے کام کریں ، اوران کے معاشرے کی مشکلات کوحل کریں ، بلکہ خودکمر ہمت کس کرکھڑے ہوجائیں اور سعی وکوشش کریں ۔
ان آ یات سے مسائل جزائی وقضاوت کی ایک حقوقی اصل کا بھی استفادہ ہوتاہے ،کہ سزائیں ہمیشہ واقعی اوراصلی گنہگاروں اورمجرموں کو ہی دی جائیں گی ، اور کوئی شخص کسی دوسرے کی سزا کواپنے ذمہ نہیں لے سکتا ۔