Tafseer e Namoona

Topic

											

									  3- تاویل کسے کہتے ہیں ?

										
																									
								

Ayat No : 7

: ال عمران

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ۷

Translation

اس نے آپ پروہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیں لَحکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں - اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ا ن ہی متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا حکم صرف خدا کو ہے اور انہیں جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں - جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے اور یہ بات سوائے صاحبانِ عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے.

Tafseer

									” تاٴویل “ کے معنی کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن حقیقت کے نزدیک یہ ہے کہ ” تاٴویل “ کا معنی لغوی معنی ہے ” کسی چیز کو پلٹانا“ اِ س لیے ہر کام یا بات کو اس کے آخری مقصد اور ہدف تک پہنچا دینے کو ” تاٴویل “ کہتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی شخص کچھ اقدام کرتا ہے جس کا اصلی ہدف واضح نہیں ہے لیکن آخر میں اسے معین کر دے تو اس چیز کو ” تاٴ ویل “ کہیں گے جیسے حضرت موسیٰ (ع) اور ایک عالم کے واقعے میں ہے کہ عالم سفر کے دوران میں ایسے کام انجام دیے جن کا مقصد واضح نہیں تھا( مثلاً کشتی میں سوراخ کرنا) اس پر حضرت موسیٰ (ع) پریشان ہوئے لیکن جب اس عالم نے اختتام ِ سفر پر اپنا مقصد بیان کیا اور کہا میرا مقصد تو کشتی کو غاصب و ظالم باد شاہ سے نجات دلانا تھا اور مزید کہا ۔ 
” ذٰلک تاٴویل مالم تسطع علیہ صبراً“ 
یہی وہ مقصد تھا جس پر تم صبر نہ کرسکے (الکہف، ۸۲)
یونہی اگر کوئی شخص کوئی خواب دیکھے جس کا نتیجہ واضح نہ ہو پھر کسی سے پوچھے یا کوئی منظر دیکھنے سے اسے اس خواب کی تعبیر معلوم ہو جائے تو اسے تاٴویل کہاجائے گا ۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے مشہور خواب دیکھا جب وہ خارجی دنیا میں عمل میں آیا اور اصطلاح کے مطابق انتہاء کی طرف پلٹ آیاتو آپ نے فرمایا ۔
”ھٰذا تاٴویل روٴیای من قبل “
یہ اس خواب کی انتہا اور نتیجہ ہے جو میں نے دیکھا تھا ۔ ( یوسف۱۰۰)
اس طرح جب کوئی انسان ایسی بات کہے کہ جس میں مخصوص مفاہیم و اسرار مخفی ہوں تو اس کے حقیقی مقاصد کو ” تاٴویل “ کہیں گے ۔ 
محل بحث آیت میں بھی ” تاٴویل “ سے یہی مراد ہے یعنی قرآن میں کچھ ایسی آیات ہیں جن کے معانی و اسرار گہرے ہیں البتہ منحرف افکار اور مفاسد اغراض رکھنے والے لوگ اس کی غلط تفسیر اور معنی گھڑلیتے ہیں اور اپنے آپ کو یا دوسروں کو غافل رکھنے کے لئے اس سےکام لیتے ہیں ۔ 
اس بناء پر ” ابتغا ء تاٴویلہ“ سے مراد یہ ہے کہ وہ آیت کی ” تاٴویل “ اس کی اصل صورت کے علاوہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں ” ابتغا ء تاٴویلہ علیٰ خلاف الحقّ“۔
جیساکہ ہم آیت کے شان نزول میں پڑھ چکے ہیں کہ کچھ یہودیوں نے قرآن کے حروف ِ مقطعات سے غلط فائدہ اٹھا تے ہوئے ان کا یہ معنی کردیا کہ دین اسلام کی مدت کم ہے ۔
اس طرح عیسائیوں نے ” روحٌ مّنْہ“سے حضرت عیسی ٰ کی الوہیت پر استدلال شروع کردیا ۔ 
یہ تمام چیزیں ” تاٴویل بغیر حق “ اور آیت کو غیر واقعی اور غلط ہدف و مقصد کی طرف پھیر نے کے مفہوم میں داخل ہیں ۔