خدا پرستی ، آگاہی ، روشن فکری اور علم و دانش
وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ۲۸۳
اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی کاتب نہیں مل رہا ہے تو کوئی رہن رکھ دو اور ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پراعتبار ہے اس کو چاہئے کہ امانت کو واپس کردے اورخدا سے ڈرتا رہے---- اور خبردار گواہی کو حُھپانا نہیں کہ جو ایسا کرے گا اس کا دل گنہگار ہوگا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے.
ضمنی طور پر (” و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ “) سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا پرستی ، آگاہی ، روشن فکری اور علم و دانش میں اضافے پر تقوی اور پرہیز گاری گہرا اثر مرتب کرتی ہے اور جب انسان کا دل پاک ہوجا تا ہے تو وہ آئینہ کی طرح حقائق کو اپنے اندر منعکس کرلیتا ہے ۔
۲۸۳۔و ان کنتم علی سفر و لم تجدو ا کاتبا فرھٰن مقبوضہ فان امن بعضکم بعضا فلیئود الذی اوتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ ولا تکتموا الشھاددة و من یکتمھا فانہ آثم قلبہ واللہ بما تعملون علیم
ترجمہ
۲۸۳۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب میسر نہ آئے تو کچھ رہن رکھ لو اور رہن کے طور پر دی گئی چیز قرض دینے والے کے قبضے میں رہنی چاہیے اور اگر تم ایک دوسرے پر ( کامل ایمان رکھتے ہو ( تو پھر رہن کی بھی ضرورت نہیں ) اور جسے امین سمجھا گیا ہے ( اور بغیر کسی رہن کے اس نے دوسرے سے کوئی چیز لے لی ہے ) اسے چاہیے کہ امانت اور اپنا حق قرض موقع پر ) ادا کرے اور اس اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور شہادت کو نہ چھپاؤ کہ جو شخص اسے چھپائے گا اس کا دل گنہ گار ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے اللہ اس سے آگاہ اور اس کا عالم ہے ۔