قرآن مجید کا طریقہ ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۲۷۸فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ۲۷۹وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۲۸۰
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان هایمان ہو. اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خد ا و رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کرلو تو اصل مال تمہارا ہی ہے . نہ تم ظلم کروگے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا. اور اگر تمہارا مقروض تنگ دست ہے تو اسے وسعت حال تک مہلت دی جائے گی اور اگرتم معاف کردو گے توتمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے بشرطیکہ تم اسے سمجھ سکو.
قرآن مجید کا طریقہ ہے کہ جزوی احکا م اور اسلامی پروگرام بیان کرنے کے بعد بہت سے مواقع پرآخر کا رکلی ،عمومی اور جامع اصول بیان کرتاہے تاکہ احکام کی مزید تاکید ہوجائے اور وہ پوری طرح فکر اورروح کی گہرائیوں میں اتر جائیں لہٰذااس آیت میں لوگوں کوقیامت اور بدکا روں کے اعمال کے عذاب کی طرف توجہ دلاتے ہو ئے بیدار کیا گیا ہے ۔مقصد یہ ہے کہ وہ متوجہ رہیں کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے کہ انسان کے تمام اعمال بغیر کسی کمی بیشی کے اسے لوٹا دیئے جا ئیں گے اور و ہ تما م چیزیں جو عالم ہستی کے د فتر ضبط وثبت میں محفوظ ہیں، ایک ہی مقام پر اسے دے دی جائیں گی یہ وہ مقام ہوگا جہاں وہ ان اعمال کے برے نتائج سے خوف زدہ ہوگا لیکن یہ تو جو کچھ بویا تھا اس کا حاصل ہو گا او رکسی کی طرف اس پر کوئی ظلم نہ ہوگا بلکہ یہ تو خود انسان ہے جو اپنے اوپر ظلم وستم روا رکھتاہے ۔وھم لا یظلمون
ضمنایہ آیت دوسرے جہان میں انسانی اعمال مجسم ہونے پر ایک اور شاہد ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ تفسیر درمنثور میں کئی طریقو ں سے منقول ہے کہ یہ پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والی آخری آیت ہے اس مضمو ن کی طرف توجہ کی جائے تو یہ بات بعید بھی نظر نہیں آتی ۔سورہ بقرہ اگر چہ پیغمبر اکرم پر نازل ہونے والی آخری سورت نہیں ہے تاہم یہ با ت پہلی بات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی کیونکہ ہمیںمعلوم ہے بعض اوقات بعد میں نازل ہونے وا لی آیات حکم رسول سے پہلی سورتوںمیں شامل کر لی گئی ہیں ۔