Tafseer e Namoona

Topic

											

									  قیادت کی شرایط

										
																									
								

Ayat No : 246-252

: البقرة

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ۲۴۶وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۲۴۷وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۲۴۸فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ۲۴۹وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ۲۵۰فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ۲۵۱تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ۲۵۲

Translation

کیا تم نے موسیٰ علیھ السّلامکے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کونہیں دیکھا جس نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم راسِ خدا میں جہاد کریں. نبی نے فرمایا کہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر جہادواجب ہوجائے توتم جہاد نہ کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم کیوںکر جہاد نہ کریں گے جب کہ ہمیں ہمارے گھروں اور بال بّچوںسے الگ نکال باہر کردیا گیا ہے. اس کے بعد جب جہاد واجب کردیا گیا تو تھوڑے سے افراد کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور اللہ ظالمین کو خوب جانتا ہے. ان کے پیغمبر علیھ السّلامنے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے. ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں ہے ان سے زیادہ تو ہم ہی حقدار حکومت ہیں. نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ علم بھی. اور ان کے پیغمبر علیھ السّلام نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میںپروردگار کی طرف سے سامانِ سکون اور آل موسیٰ علیھ السّلام اور آل ہارون علیھ السّلام کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے. اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لئے قدراُ پروردگار کی نشانی بھی ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو. اس کے بعد جب طالوت علیھ السّلام لشکر لے کرچلے تو انہوں نے کہا کہ اب خدا ایک نہر کے ذریعہ تمہارا امتحان لینے والا ہے جو اس میں سے پی لے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا اور جو نہ چکھے گا وہ مجھ سے ہوگا مگر یہ کہ ایک چلّو پانی لے لے. نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے پانی پی لیا سوائے چند افراد کے---- پھر جب وہ صاحبانِ ایمان کو لے کر آگے بڑھے لوگوں نے کہا کہ آج تو جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کی ہمت نہیں ہے اور ایک جماعت نے جسے خدا سے ملاقات کرنے کا خیال تھا کہا کہ اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے. اور یہ لوگ جب جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا کہ خدایا ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہمیں کافروں کے مقابلہ میں نصرت عطا فرما. نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دے دی اور داؤد علیھ السّلامنے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاہا دے دیا اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا رہتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن خدا عالمین پر بڑا فضل کرنے والا ہے. یہ آیااُ الہٰیہ ہیں جن کو ہم واقعیت کے ساتھ آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں اور آپ یقینا مرسلین میں سے ہیں.

Tafseer

									اس زمانے کے پیغمبر نے معترضین کو جو دندان شکن جواب دیا قرآن اسے یوں بیان کیا ہے :خدا نے اسے تم پر حکمرانی کی خاطر اس لیے چنا ہے کہ وہ دانایی ٴ و مرادنگی اور علم سے مالا مال ہے اور جسمانی طاقت کے لحاظ سے قوی اور صاحب قدرت ہے یعنی تم اشتباہ کا شکار ہو اور رہبری کی بنیادی شرایٴط بھولے بیٹھے ہو 
اس طرح قرآن نے قیادت کے لیے پیشکردہ ان کی شرایٴط کی نفی کر دی کیونکہ انکی پیش کردہ دونوں شرایٴط میں سے کویی ٴ بھی حقیقی امتیاز اور خصوصیت نہیں کہلا سکتی ااباء و اجداد کی شخصیت اور دولت و ثروت دونو اعتباری اور خارج از زات امتیازات ہیں لیکن علم و دانش اور جسمانی طاقت ذات میں داخل امتیازات اور خصوصیات ہیں 
رہبر اپنے عل و دانش سے معاشرہ کے لیے راہ سعادت کی نشاندہی کرتا ہے اور اسکے لیے اصول بتلاتا ہے نیز اپنی طاقت اور قوّت کے ذریعے اسکے اجرا ء کا اہتمام بھی کرتا ہے اسی لیے تو فرمایا گیا ہے ان اللہ الصطفٰہ علیکم وزادہ بسطة فی العلم والجسم 
بسطةجس کے معنی وسعت ہے ضمنی طور پر علم و قدرت کے ساے ٴ میں انسانی وجود کی وسعت کی طرف اشارہ یعنی علم ودانش اور فرزانگی نیز جسمانی قد رت و طاقت وجود ہستی کے اعتبار سے انسان میں وسعت پیدا کرتی ہے اور جوں جوں یہ صفات وسیع ہوتے ہیں وجود ہستی میں بھی وسعت پیدا ہو تی رہتی ہے 
وللہ یو ٴتی ملکہ من یشائ
ممکن ہے ی جملہ رہبری کین تیسری شرط کی طرف اشارہ ہو جو یہ ہے کہ رہبر کے لیے مختلف اسباب و ذرایع کی فراہمی بھی درکار ہے کیونکہ ممکن ہے رہنر علم و دانش سے کاملاً مالامال ہو لیکن اسکا سابقہ ایسے حالات و اوقات سے ہو جو اسکے مقدس مقاصد کے لیے سازگار نہ ہو ںیہ طے شدہ بات ہے کہ ایسی رہبری واضح کامیابی حاصل نہیں کر سکتی  قرآن کہتا ہے کہ حکومت ِ الٰہی جسے خدا چاہتا ہے بخش دیتا ہے یعنی اس ماحول کے لیے جو وسایٴل و ذرایع ضروری ہوںوہ اسکے لیے فراہم کر دیتا ہے  
وللہ واسع علیم 
یعنی خدا ایک لا متناہی ہستی اس کا فضل ور بخشش بھی اس کے وجود کی طرح لا متناہی ہے لیکن علیم ہے اور جانتا ہے کہ کو ن سا منسب کے بخشا جانا چاہئے
و قال لہم نبیہم ان ّ آیة ملکہ ان یاتیکم التابوت یہ آیت نشاندہی کر تی ہے کہ بنی اسراییٴل ابھی تک خدا طرف سے طالوت کی ماٴموریت پر مطمئن نہیں ہو ے ٴ تھے حالانکہ انکے پیغمبر اشموییٴل  تصریح کر چکے تھے کہ وہ اس کام کے لیے خدا کی طرف سے ماٴمور ہو ے ٴ ہیں انہوں نے اسکی نشانی اور دلیل کا تقاضا کیا جواب میں اشموییٴل نے کہا : طالوت کے ماٴمور من اللہ ہونے نشانی یہ ہے کہ تابو ت (صندوق عہد)تمہاری طرف آے گا یہ بات بنی اسرائیل کے لیے کافی ہونا چاہیے ٴ تھی بہر حال اب دیکھتے ہیں تابوت کیا چیز تھی