Tafseer e Namoona

Topic

											

									  بعض قسمیں تو اسلام کی نگاہ میں بالکل لغو

										
																									
								

Ayat No : 224-225

: البقرة

وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۲۲۴لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ۲۲۵

Translation

خبردار خدا کو اپنی قسموںکا نشانہ نہ بناؤ کہ قسموںکو نیکی کرنےً تقویٰ اختیارکرنے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے میں مانع بنادو اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے. خدا تمہاری لغواور غیر ارادی قسموںکا مواخذہ نہیں کرتا ہے لیکن جس کو تمہارے دلوں نے حاصل کیا ہے اس کا ضرور مواخذہ کرے گا. وہ بخشنے والا بھی ہے اور برداشت کرنے والا بھی.

Tafseer

									اسلام کی نظر میں قسم کھانا اصولی طور پر اچھا نہیں ہے جیسا کہ اوپر بھی بیان کیاجاچکاہے لیکن یہ فعل حرام بھی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات اہم مقاصد کے لیے قسم کھانا مستحب یا واجب بھی ہوجاتاہے۔
بعض قسمیں تو اسلام کی نگاہ میں بالکل لغو اور بے اعتبار ہیں مثلا وہ قسم جو غیر خدا کے نام کی ہو۔ ایسی قسمیں جن میں خدا کا نام نہیں ہے بالکل بے اثر ہیں اور ان کے مطابق عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس طرح حرام یا مکروہ فعل انجام دینے کے لیے کھائی جانے والی قسمیں بھی بے اثر ہیں۔ مثلا کوئی شخص قسم کھالے کہ وہ کسی کا قرض ادا نہیں کرے گا یا جہاد سے بھاگ جائے گا و غیرہ غیرہ۔ اگر کوئی ایسی قسم کھائے تو اس کی پرواہ نہ کرے اور اپنی ذمہ داری پوری کرے اور اس کے ذمہ ایسی قسم کا کوئی کفارہ بھی نہیں ”لاَیُؤَاخِذُکُمْ اللهُ بِاللَّغْوِ فِی اٴَیْمَانِکُمْ“کی تفسیر میں ایک یہی مفہوم مضمر ہے۔
ایسی قسمیں جو خدا کے نام پر کھائی جائیں اور ان کا مقصد کوئی اچھا کام ہو یا کم از کم فعل مباح ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے اور اس کی مخالفت پر کفارہ دینا پڑے گا۔ سورہ مائدہ آیہ ۸۹ کے مطابق اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔
۲۲۶۔لِلَّذِینَ یُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِہِمْ تَرَبُّصُ اٴَرْبَعَةِ اٴَشْہُرٍ فَإِنْ فَائُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیم
۲۲۷۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ 
ترجمہ
۲۶۶۔ جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھاتے ہیں (یعنی ان سے جنسی ملاپ نہ کرنے کی سوگند کھاتے ہیں) وہ چار ماہ تک انتظار کا حق رکھتے ہیں (اور ان چار ماہ کے دوران میں اپنی بیوی کے ساتھ زندگی گزارنے یا اُسے طلاق دینے کے بارے میں اپنا ارادہ اور کیفیت واضح کرلیں، اب اگر اس وقفہ میں ) رجوع کرلیں(تو کوئی حرج نہیں کہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
۲۲۷۔ اور اگر علیحدگی کا مصمم ارادہ کرلیں (وہ بھی اس کی پوری شرائط کے ساتھ تو بھی حرج نہیں خدا سننے والا اور جاننے والاہے ۔