کا لطف نه هوتا تو کوئی جاندار زمین پر باقی نه رهتا
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا ۴۵
اور اگراللہ تمام انسانوں سے ان کے اعمال کا مواخذہ کرلیتا تو روئے زمین پر ایک رینگنے والے کو بھی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مخصوص اور معین مدّت تک ڈھیل دیتا ہے اس کے بعد جب وہ وقت آجائے گا تو پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خوب بصیرت رکھنے والا ہے.
تفسیر
کا لطف نه هوتا تو کوئی جاندار زمین پر باقی نه رهتا
زیرنظر آیت سورة فاطر کی آخری آیت ہے۔ اس سورہ کی گزشتہ آیات میں تند و تیز بحثیں اور شدید تہدیدیں کی تھیں اور آخری آیت میں پروردگار کے لطف و رحمت کا بیان ہے جیسے اس سورہ کا آغاز لوگوں پراللہ اس کی وسیع رحمت کے ذکر سے ہوا تھا ۔ اس طرح سے اس کے آغاز و اختتام پررحمت الٰہی کا بیان ہے۔
گزشتہ آیت بے ایمان مجرموں کو گزشتہ لوگوں کی سرنوشت کے حوالے سے تہدید کرتی ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے سامنے یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر تمام سرکشوں کے بارے میں سنت الٰہی یہی ہے تو پھر مکہ کی اس مشرک اور سرکش قوم کو خدا سزا کیوں نہیں دیتا؟
اس سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے: "اگر خدا تمام لوگوں کو ان اعمال کی بناء پر کہ جو انہوں نے انجام دیئے ہیں سزا دے (اور اصلاح ، تجدید نظر اور خود سازی کے لیے انہیں کچھ بھی مہلت نہ دے )تو پھر کسی بھی جاندار کو زمین پر باقی نہ چھوڑے گا"۔ (ولو يؤاخذ الله الناس بما كسبوا ها ترك علٰى ظهرها من دابة).
ایسے پے در پے عذاب نازل ہوں اور بجلیاں ، زلزلے اور طوفان تمام گنہگاروں کی سرکوبی کریں کہ میں کسی کے لیے زندہ رہنے کی جگہ نہ رہے۔
لیکن خدا اپنے لفت وکرم سے انہیں معین زمانے تک تاخیر میں ڈالنے گا اور انہیں توبہ واصلاح کی مہلت دے گا"۔ (ولكن يؤخرهم الٰى اجل مسمی)۔
لیکن حلم اور خدائی مہلت ایک حساب سے ہوتی ہے۔ یہ اس وقت تک کے لیے ہے کہ ان کی اجل آن پہنچے گی توہر شخص کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا کیونکہ خدا اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے، وہ ان کے اعمال کو بھی دیکھ رہا ہے اور ان کی نیتوں سے بھی باخبر ہے"۔ (فاذا جاء اجلھم فان الله كان بعباده البصیرًا)۔
یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں جن کا جواب اس سے کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے۔ واضح ہوجاتا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ ہم حکم عام کہ اگر خدا لوگوں کو ان کے اعمال کی وجہ سے سزادے تو کوئی بھی صفحہ زمین پر باقی بچے گا ، انبیاء و اولیاء اورصالحین کو بھی شامل کرلیتا ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "اذا جاء اجلھم" کا جملہ شرط ہے اور اس کی جزا مقدرہے ، یہ واقع میں اس طرح تھا :
فاذا جاء اجلھم یجازی کل احد بما عمل ۔
اسی بناء پر "فان الله" کا جملہ جزا کی علت ہے کہ جو محذوف معلول کا جانشین ہوا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ "لايستأخرون ساعة ولايستقدمون "کی جزا ہو کہ جو قرآن کی دوسری آیات مثلًا سورہ نحل کی آیہ 61 میں بیان ہوئی ہے۔
تو اس بناء پر "فان الله كان بعبادہ بصيرًا" کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سب کوپہچانتا اور جانتا ہے کہ کس کی اجل آن پہنچی ہے،
تاکہ اسے اپنی قدرت کے ذریعے پکڑلے ۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس سوال کا جواب واضح ہے کیونکہ اس قسم کے احکام عامة الناس اور اکثریت قاطع متعلق ہوتے ہیں ۔ انبیاء و آئمہ اور صالحین کہ جو اقلیت میں ہیں مسلمہ طور پر اس سے خارج ہیں خلاصہ یہ ہے کہ ہم استناء رکھتا ہے اور وہ اس حکم سےمستثنٰی ہیں۔
یہ بعنیہ اس طرح ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں اہل جہان غافل ہیں ، حریص ہیں اور مغرور ہیں اور اس سے مراد ان کی اکثریت ہے۔
سورہ روم کی آیہ 41 میں ہے :
ظهر الفساد في البر والبحر بماکسبت ایدی الناس ليذيقهم بعض الذي
عملوا لعلھم یرجعون
"لوگوں کے اعمال کی وجہ سے خشکی اور تری میں خرابی کا شکار ہوگئی ہے ، خدا چاہتا ہے کہ اُن کے اعمال کے بعض نتائج انہیں چکھائے تاکہ وہ پلٹ آئیں"۔
ظاہر ہے کہ یہ خرابی تمام لوگوں کے اعمال کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اکثریت پر نظر ہے۔
اسی سورہ کی آیہ 32 کہ جو انسانوں کو تین گروہوں ۔ ظالم ، درمیانے اور "سابق بالخیرات" میں تقسیم کرتی ہے ، اس معنی پرایک اور گواہ ہے۔
اس بناء پر زیربحث آیت عصمت انبیاء سے کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتی ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا زیر بحث آیت میں "دابة" (چلنے پھرنے والا) غیر انسانوں کے لیے بھی ہے؟ یعنی وہ بھی انسانوں کی سزا کی بناء پرختم ہوجائیں گے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دوسرے جانداروں کے وجود کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان ان سے فائده اٹھائیں اور جب نسل بشر ہی ختم کردی جائے تو پھران کے وجود کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ ؎1
آخر میں ہم اس بحث کو پیغمبراکرمؐ کی ایک حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ جو آخری آیت کی تفسیر میں بیان ہوئی ہے۔
اس حدیث کے مطابق پیغمبراکرم صلی الله علیه و سلم فرماتے ہیں :
"خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ اے آدمؑ کے بیٹے تو میرے ارادے اور مشیت کے مطابق آزاد پیدا کیا گیا ہے کہ تو جو کچھ اپنے لیے چاہے اختیار کر سکتا ہے اور تو میرے ارادے کے ساتھ صاحب ارادہ
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "دابة" "وہیب کے مادہ سے آہستہ آہستہ چلنے اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے معنی میں ہے لیکن لغوی معنی کے لحاظ سے عام طور پر چلنے پھرنے والے کو کہتے ہیں چاہے وہ جلدی جلدی چلے یا آہستہ آہستہ لیکن کبھی کبھی "دواب" سواری کے جانوروں کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہوا ہے تو جو کچھ اپنے لیے ارادہ کرنا چاہے کرسکتا ہے. ان نعمتوں کے ذریعے کہ جو میں نے تجھے دی ہیں تو نے قوت حاصل کی ہے اور میری معصیت کا مرتکب ہوا ہے اور میری عطاکردہ قدرتو عافیت کے ساتھ تو میرے فرائض کو ادا کرسکتا ہے ۔ اس بنا پر میں تیرے حسنات اور نیکیوں کے سلسلے میں خود تجھ سے اولٰی ہوں اور تو اپنے گناہوں کے سلسلے میں مجھ سے اولٰی ہے میری طرف سے ان نعمتوں کے ذریے کہ جو میں نے تجھے دی ہیں ہمیشہ خیرات ہی پہنچی ہیں اور تیری طرف سے تیرے جرائم کی بناء ہمیشہ شراور برائی تجھ تک پہنچتی ہے... میں نے تجھے انذرا کرنے اور پندونصیحت کرنے میں ہرگز کوئی کسر نہیں چھوڑی اور غوروغفلت کے موقع پر میں نے تجھے فورًا سزا نہیں دی (بلکہ میں نے توبہ و اصلاح کے لیے تھے کا في مہلت دی).
اس کے بعد پیغمبرؐ نے فرمایا کہ یہ وہی چیز ہے کہ جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ:
ولو يؤاخذالله الناس بماکمبواما ترك على ظهرها من دابة"۔ ؎1
پروردگارا ! ہمیں ان لوگوں میں سے قراردے کہ جو موقع نکل جانے سے پہلے بیدارہوجاتےہیں اور تیری طرف پلٹ آتے ہیں اور اپنے تاریک ماضی کو حسنات کے نور اور تیری رضا سے روشن کرتے ہیں۔
بارالها! اگر تیری رحمت شامل حال نہ ہوتی تو وہ آگ کہ جو ہمارے برے اعمال کے اندر سے بھڑکتی ہمیں نگل جاتی اور اگر تیری بخشش کے نور اور روشنی کا ہمارے دل پر چھڑکاؤ نہ ہوتا تو شیطان کا لشکر اس پرقبضہ کرلیتا۔
خداوندا ! ہمیں ہرقسم کے شرک سے محفوظ رکھ اور ایمان اور خالص توحید کا چراغ ہمارے دل میں روشن فرما اور ہماری گفتارواعمال میں تقوٰی کی روشنی زیادہ کردے۔
سوره فاطر کا اختتام
ماہ رجب 1404 جری
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیر نورالثقلین ج 4 ض 370 بحوالہ تفسیر علی بن ابراہیم۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------