شیریں اورشورپانی والے دریا یکساں نہیں هیں
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ۱۱وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ۱۲
اوراللہ ہی نے تم کو خاک سے پیدا کیا پھر نطفہ سے بنایا پھر تمہیں جوڑا قرار دیا اور جو کچھ عورت اپنے شکم میں اٹھاتی ہے یا پیدا کرتی ہے سب اس کے علم سے ہوتا ہے اور کسی بھی طویل العمر کو جو عمر دی جاتی ہے یا عمر میں کمی کی جاتی ہے یہ سب کتاب الٰہی میں مذکور ہے اوراللہ کے لئے یہ سب کام بہت آسان ہے. اور دو سمندر ایک جیسے نہیں ہوسکتے ایک کا پانی میٹھا اور خوشگوار ہے اور ایک کا کھارا اور کڑوا ہے اور تم دونوں سے تازہ گوشت کھاتے ہو اور ایسے زیورات برآمد کرتے ہو جو تمہارے پہننے کے کام آتے ہیں اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ سمندر کا سینہ چیرتی چلی جاتی ہیں تاکہ تم فضل خدا تلاش کرسکو اور شاید اسی طرح شکر گزار بھی بن سکو.
تفسیر
شیریں اورشورپانی والے دریا یکساں نہیں هیں
گزشتہ آیات میں توحید ، معاد و صفات خدا کے بارے میں گفتگوتھی - زیر بحث آیات میں بھی جاندار مخلوقات اور آفاق میں اللہ کی بعض اور نشانیوں کا ذکر ہے کہ جو خدا کی قدرت کی بھی دلیل ہیں اس کے علم کی بھی اور امکان معاد کی بھی۔
پہلے مختلف مراحل میں انسان کی پیدائش کے متعلق اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : "خدا نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا"۔ (والله خلقكم من تراب).
"پھر نطفہ سے"۔ (ثم من نطفة) -
"پھر تمهارے جوڑے بنادیئے"۔ (ثم جعلکم ازواجًا).
یہ تین مرحلے انسان کی حالت کے مراحل میں سے ہیں ، مٹی ، نطفہ اور زوجیت۔
یہ بات مسلم ہے کہ انسان مٹی سے بنا ہے اس لحاظ سے بھی کہ انسانوں کے جد اعلی حضرت آدمؑ و مٹی سے پیدا ہوئے اور اس لحاظ سے بھی کہ وہ تمام مادے کر جو جسم انسانی کو تشکیل دیتے ہیں یا انسان ان سے غذا لیتا ہے، یا اس کا نطفہ ان سے بنتا ہے وہ سب کے سب مٹی ہی سے نشو ونما پاتے ہیں.
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ مٹی سے پیدائش صرف پہلی خلقت کی طرف اشارہ ہے لیکن نطفہ سے پیدائش بعد کے مراحل کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ پہلے انسانوں کی خلقت کا اجمالی مرحلہ ہے (کیونکہ سب کا وجود آدم کے وجود سے چلتا ہے) اور دوسرا مرحلہ تفصیلی ہے کہ جس میں انسان ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔
جبکہ زوجیت کا مرحلہ نسل انسانی کے تسلسل اور اضافے کا مرحلہ ہے۔
نیز یہ جو بعض نے خیال ظاہر کیا ہے کہ "ازواج" یہاں "اصناف" یا "روح و جسم" وغیرہ کے معنی میں ہے ، بہت بعید نظر آتا ہے۔
اس کے بعد حیات انسانی کے چوتھے اور پانچویں مرحلے کا ذکر ہوتا ہے اور ماؤں کے حاملہ ہونے اور بچے جننے کے بارے میں بات کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے۔ "کوئی مادہ حاملہ نہیں ہوتی اور بچہ جنتی مگر وہ خدا کے علم میں ہوتا ہے" (وما تحمل من انثٰی ولاتضع الا بعلمه)۔
حمل ٹہرنا اور پھر جنین کی حالت میں بہت ہی عجیب اور پیچیدہ تبدیلیاں اور اس کے بعد وضع حمل یہ حساس اور حیرت انگیز تغیرات کہ جو ایک طرف ماؤں کو اور دوسری طرف جنین کو پیش آتے ہیں، اتنے عمیق اور دقیق ہیں کہ جو خدا کے بے پایاں علم کے بغیر ممکن نہیں ہیں ، کیونکہ اگر ان پر حکم فرما نظام سوئی کی نوک کے برابر بھی معطل ہوجائے ، توحمل یا وضع حمل کے سارے پروگرام میں خلل واقع ہوجائے اور معاملہ تباہی تک پہنچ جائے۔
انسان کی زندگی کے ان پانچ مرحلوں میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر عجیب اور تعجب خیز ہے۔
بے جان مٹی کہاں اور زندہ ، عقل مند ، صاحب ہوش اور نوبہ نو کام کرنے والا انسان کہاں؟
بے قدروقیمت نطفہ کہ مستعفن پانی کے چند قطروں سے بنا ہے کہاں؟ صاحب رشد خوبصورت مختلف حواس کا حامل اور طرح طرح کی کاریگری کا مظہر انسان کہاں؟ ؎1
جب ہم اس مرحلہ سے گزر جاتے ہیں تو نوع انسان کی دوصنفوں "مذکر" اور "مونث" میں تقسیم کا مسئلہ پیش آتا ہے ۔ اس میں جسم اور فزیالوجی کے حوالے سے بہت سے اختلافات موجود ہیں۔ یہ دونوں انعقاد نطفہ کے آغاز ہی سے اپنے اپنے راستے ایک دوسرے سے جدا کر لیتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری کے مطابق آگے بڑھتے ہیں اور تکامل وارتقار کی منزلیں طے کرتے ہیں ۔
اس کے بعد اس بار کو قبول کرنے، اٹھانے ، اس کی حفاظت کرنے ، غذا دینے اور پرورش کرنے کے لیے ماں کی ذمہ داری کا ذکر آتا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے صدیوں سے عظیم علماء اور دانشوروں کے افکار کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے اور وہ اس بات کے معترف ہیں کہ یہ مسئلہ عالم ہستی کے عجیب ترین مسائل میں سے ہے ۔
آخری مرحلہ بچہ کی پیدائش کا ہے، یہ ایک نہایت سخت اور تغیراتی مرحلہ ہے کہ جو بہت سے عجائبات کا حامل ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں کہ جو بچے کو شکم مادرسے باہر نکلنے کا حکم دیتے ہیں؟
اس حکم اور اندام مادر کا اس کے لیے آمادہ ہونا ، ان دونوں کے درمیان کیسی مکمل ہم آہنگی برقرار ہوتی ہے؟
بچہ اس وضع و کیفیت کو کہ جس کا وہ نو ماہ سے عادی تھا لحظ بھر میں کیسے بالکل بدل دیتا ہے اور ماں سے اپنا رابطہ منقطع کرلیتا ہے اور آزاد ہواسے استفادہ کرنے لگتا ہے۔ اس کی غذا آمد و رفت
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "نطفہ" جیسا کہ تم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ، اصل میں پانی یا تھوڑے سے صاف پانی کو کہتے ہیں ، اسی مناسبت سے تھوڑے سے پانی کے لیے یہ لفظ بولا جانے لگا کہ جو انعقاد جنین کی بنیاد بنتا ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بند ناف کی راہ سے اچانک بند ہو جاتی ہے اور غذا کی آمد ورفت کے لیے ایک نیا راستہ یعنی اس کا منہ کام کرنے لگتا ہے۔ ماں کے پیٹ کا تاریک ماحول چھوڑ کر روشنی میں آجاتا ہے اور ان تمام تغیرات کا مقابلہ کرتا ہے اور فوری طور پر خود کو ان کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔
کیا یہ خدا کے بے پایاں علم و قدرت کی بہترین نشانی نہیں ہے؟ اور کیا بے شعور مادہ اور بے ہدف طبعیت اور اندھے اتفاقات زنجیر خلقت کے ہزاروں حلقوں میں سے ایک چھوٹے سے حلقے کی تنظیم کا کام بھی سرانجام دے سکتے ہیں ؟ کس قدر بے انصافی ہے کہ انسان اپنی خلقت کے بارے میں اس قسم کے موہوم خیالات کو قبول کرلے۔
اس کے بعد اس عجیب وغریب نظام عمل کے چھٹے اور ساتویں مرحلہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ عمر کے مختلف مراحل کی مختلف عوامل کے زیر اثر زیادتی اورکمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کوئی خمس طولانی عمر نہیں پاتا اورکسی کی عمر میں کمی نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ خدا کے علم کی کتاب میں ثبت ہے" یہ کام ایسے قوانین اور نظام کی پیروی کرتا ہے، کہ جن پر اس کا علم و قدرت حکم فرما ہے (وما یعمر من معمر ولاينقص من عمره الا في كتاب)۔ ؎1
وہ کون سے عوامل ہیں جو حیات انسانی کو جاری رکھنے میں مؤثر ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں کہ جو اس کی حیات کو جاری رکھنے کی مخالفت کرتے ہیں یعنی وہ کون سے عوامل ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے انسان سو سال یا اس سے کم وبیش زندگی کو جاری رکھ سکے ، اور وہ کون سے عوامل ہیں کہ جو انسانوں کی عمر میں اختلاف کا سبب بنتے ہیں؟
یہ سب کے سب امور دقیق اور پیچیدہ حقائق رکھتے ہیں ، کہ جن سے خدا کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے موجودہ زمانے میں ہم جو کچھ اس سلسلے میں جانتے ہیں وہ اس کے مقابلے میں کہ جسے کم نہیں جانتے بہت ہی کم ہے اور زیاده قدر و قیمت کا حامل نہیں ہے۔
"معمر" "عمر" کے مادہ سے ہے۔ اصل میں یہ لفظ "عمارت" سے لیا گیا ہے کہ جو آبادی کے معنی میں ہے ۔ یہ جو حیات انسانی کی مدت کو "عمر" کہا جاتا ہے تو یہ اس بنا پرہے کہ اس کے بدن کی "عمارت" اور آبادی اسی مدت میں ہے۔ "معمر" اس شخص کے معنی میں ہے کہ جس کی عمر طولانی ہو۔
آخر کار آیت کو اس جملے پرختم کردیا گیا ہے : "یہ سب کچھ خدا کے لیے آسان ہے"۔ (ان قالك على الله یسیر) ۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "کتاب" سے مراد خدا کا بے پایاں علم ہے اور یہ جو بعض اس سے لوح محفوظ یا "حیات انسانی کا نامہ اعمال" مراد لیتے ہیں تو یہ مفہوم بھی علم خدا کی طرف لوٹتاہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس عجیب و غریب موجود کی "مٹی" سے خلقت اور "نطفہ کے پانی" سے ایک کامل انسان کی خلقت کا آغاز اور اسی طرح زوجیت ، حمل ، وضع حمل اور عمر کی زیادتی وکمی سے متعلق مسائل چاہے وہ قدرت کے لحاظ سے ہوں یا علم و حساب کے لحاظ سے ، سب کے سب اس کے لیے سہل اور آسان ہیں ، یہ سب دنیاۓ انفس میں اس کی نشانیوں ایک گوشہ ہے ۔ یہ امور ایک طرف تو ہمیں عالم ہستی کے مبداء سے مربوط و آشنا کرتے ہیں اور دوسری طرف معاد و قیامت کے امکان پر زنده دلائل شمار ہوتے ہیں۔
وہ ذات کہ جو "مٹی" اور "نطفہ سے پہلی خلقت پر قادر ہے، کیا وہ انسانوں کی حیات نو پر قادر نہیں ہے؟
اور وہ ذات کہ جوان قوانین سے مربوط تمام جزئیات سے باخبر ہے، کیا اسے بندوں کے حساب وکتاب کو قیامت کے میدان کے لیے محفوظ رکھنے میں کوئی مشکل ہوگی ؟
بعد والی آیت میں آفاق میں اس کی عظمت و قدرت کی کچھ نشانیاں ذکر کی گئی ہیں ۔ دریاؤں کی خلقت اور ان کی برکات و فوئد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :" دو دریا یکساں نہیں ہیں ان میں سے ایک عمدہ ، شیریں اور پینے میں خوشگوار ہے اور ان میں سے دوسرا کھاری اور گلو گیرہے" (وما و یستوى البحران هذاعذب فرات سائغ شرابه و هذا ملح أجاج)۔ ؎1
اگرچہ وہ دونوں پہلے دن تو بارش کے شیریں قطرات کی شکل میں آسمان سے زمین پر برسے تھے اور دونوں کا سرچشمہ ایک ہی تھا ، لیکن اب گویا دونوں کا چہرہمختلٓف ہے اور مختلف فوائد کے حامل ہیں۔
اور تعجب کی بات یہ ہے کہ :" تم ان دونوں ہی سے ترو تازہ گوشت کھاتے ہو " (ومن کل تأكلون لحمًا طریًا)
"اور دونوں سے کی پہننے کے لیے زینت کی چیزیں نکالتے ہو۔" (وتستخرجون حلية تلبسونها)۔
علاوہ ازیں دونوں ہی سے مال و متاع اور نقل وحمل کے لیے فائدہ اٹھاتے ہو، لہذا تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ جو ہر طرف دریاؤں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں ، تاکہ تم خدا کے فضل سے فائدہ اٹھاؤ، شاید اس کے شکر کا حق ادا کرو" (وترى الفلك فيه مواخر لتبتغوا من فضله ولعلكم تشکرون) -
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "عذب" جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے پاکیزہ اور سرد کے معنی میں ہے اور "لسان العرب" میں اس کا معنی صرف پاکیزه پاني بیان ہوا ہے (الماء الطيب) ممکن ہے کہ اس کا ٹھنڈا وشیریں ہونا بھی ، "طیب" کے مفہوم میں داخل ہو -
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------