خمر کا معنی ہے ”ڈھکنا“
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۲۱۷إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۲۱۸
پیغمبر یہ آپ سے محترم مہینوں کے جہاد کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ان میں جنگ کرنا گناہ کبیرہ ہے اور راسِ خدا سے روکنا اور خدا اورمسجدالحرام کی حرمت کا انکار ہے اور اہلِ مسجد الحرام کا وہاںسے نکال دینا خدا کی نگاہ میں جنگ سے بھی بدتر گناہ ہے اور فتنہ تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے--- اور یہ کفار برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے امکان میں ہو تو تم کو تمہارے دین سے پلٹا دیں. اور جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا اور کفر کی حالت میں مر جائے گا اس کے سارے اعمال برباد ہوجائیں گئے اور وہ جہنّمی ہوگا اور وہیں ہمیشہ رہے گا. بےشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا وہ رحمت الٰہی کی امید رکھتے ہیں اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے.
خمر کا معنی ہے ”ڈھکنا“ ۔ ہر وہ چیز جو دوسری کو چھپادے اور مخفی کرے اسے خمار کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں ہر بہنے والی مسکر (مست کرنے والی) چیز کو خمر کہتے ہیں، چاہے وہ انگور سے لی جائے یا کشمکش اور کھجور سے ۔ بلکہ ہر قسم کا الکحل مشروب اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ البتہ لفظ خمر کا استعمال مائعات مسکر (یعنی بہنے والی نشہ آور چیزوں) پر اس کے لغوی معنی کی مناسبت سے ہوتاہے کیونکہ نشہ آور مائعات عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور اچھے برے کی تمیز ختم کردیتی ہیں۔
”میسر“ کا مادہ ہے ”یسر“ اس کا معنی ہے سہل و آسان اور قمار بازی، بظاہر لگتاہے کہ اس کا حقیقی معنی سہل اور آسان ہے ہے اور چونکہ قمار باز شخص چاہتاہے کہ مال و ثروت آسانی سے حاصل کرلے اس بناء پر قمار کو بھی میسر کہاجاتاہے
”قل فیہما اثم کبیر و منافع للناس و اثمہما اکبر من“
خداوند کریم نے آیت کے اس حصے میں حرمت شراب کے حکم کو نرمی اور مدارات کی آمیزش سے بیان فرمایاہے خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتاہے کہ ان کے جواب میں کہویہ دونوں بڑے گناہ ہیں اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے منفعت بھی ہے لیکن ان کا فائدہ ان کے نقصان کی نسبت بہت ہی کم ہے اور کوئی عقلمند شخص تھوڑے سے نفع کے لیے اتنا بڑا نقصان اٹھانا گوارا نہیں کرسکتاہے۔
اثم کیاہے
”اثم“ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کی عقل اور روح میں وجود پذیر ہوتی ہے اور اسے نیکیوں اور کمالات تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ اس نکتے کے پیش نظر آیت کا معنی کچھ یوں بنتاہے کہ شراب اور قمار کی بدولت انسانی جسم اور روح بہت زیادہ نقصانات اور ضرر کا سامنا کرتے ہیں۔
ان دونوں برائیوں کے نقصانات کی طرف مزید توجہ دلانے کے لیے ہم علماء نفسیات اور ڈاکٹروں کی تازہ ترین تحقیق قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔