Tafseer e Namoona

Topic

											

									  دین اور معاشرہ

										
																									
								

Ayat No : 213

: البقرة

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۲۱۳

Translation

( فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے . پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیائ بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر----- تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے.

Tafseer

									مندرجہ بالا آیت سے ضمنی طور پر یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دین اور انسانی معاشرہ دو ایسی حقیقتیں ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں۔ کوئی معاشرہ مذہب اور قیامت پر ایمان رکھے بغیر صحیح زندگی نہیں گزارسکتا۔ ایسے انسانی قوانین جن کا سرچشمہ ایمان نہیں وہ فقط ذاتی ذمہ داریوں کی نشاندہی تک محدود ہیں۔ وہ انسانی وجود پر گہرا اثر مرتب نہیں کرتے ۔ ایسے قوانین اختلافات اور منافع کی تضاد کو ختم نہیں کرسکتے۔ ان آخری صدیوں کی آزمائشوں میں انسانی معاشروں میں یہی حقیقت اچھی طرح ثابت ہوچکی ہے ۔ ایمان سے بے بہرہ وہ دنیا جسے اصطلاح میں متمدن کہا جاتاہے بہت سی ایسی قباحتوں اور گناہوں کی مرتکب ہورہی ہے جو تھوڑا بہت ایمان رکھنے والے گذشتہ پس ماندہ معاشروں میں دکھائی نہیں دیتے 
زیر نظر آیت سے ضمنا یہ بھی واضح ہوتاہے کہ حقیقی دین و مذہب کی پیدائش انسانی پیدائش کے ساتھ ساتھ نہیں ہوئی بلکہ معاشرے کے وجود کے ساتھ حقیقی دین و مذہب بھی وجود پذیر ہوا۔ ا س بنا ء پر اس میں کوئی تعجب نہیں کہ سب سے پہلے اوالعزم اور صاحب دین و شریعت پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام تھے نہ کہ حضرت آدم علیہ السلام
۲۱۴۔ اٴَمْ حَسِبْتُمْ اٴَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَاٴْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمْ الْبَاٴْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللهِ اٴَلاَإِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِیب
ترجمہ
۲۱۴۔ کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں جاؤگے اور تمہیں وہ حوادث پیش نہیں آئیں گے جو گذشتہ لوگوں کو در پیش ہوئے۔ وہی لوگ جنہیں دشواریاں اور تکلیفیں در پیش ہوئیں اور وہ ایسے دکھ درد میں مبتلا ہوئے کہ پیغمبر اور ان کے ساتھ اہل ایمان کہنے لگے خدا کی مدد کہاں ہے (اور سب نے اس وقت اللہ سے مدد کا تقاضا کیا لیکن ان سے کہہ دیا گیا کہ) آگاہ رہو کہ خدا کی مدد قریب ہی ہے۔

شان نزول
بعض مفسرین کہتے ہیں جنگ احزاب میں جب مسلمانوں پر ڈر اور شدید خوف غالب آیا اور وہ محاصرے میں آگئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں انہیں صبر و استقامت کی دعوت دی گئی اور نصرت و مدد کا وعدہ کیاگیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنگ احد میں جب مسلمان شکست کھا گئے تو عبداللہ ابن ابی نے ان سے کہا کہ کب تک اپنے آپ کو قتل کرواتے رہو گے اگر محمد پیغمبر ہو تا تو خدا اس کے اصحاب و انصار کو قید و بند اور قتل میں گرفتار نہ کرتا۔ اس موقع پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔