حج رمز وحدت مسلمین جهان
فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۲۰۰وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۲۰۱أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ۲۰۲
پھر جب سارے مناسک تمام کرلو توخدا کو اسی طرح یاد رکھوجس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا ہی میں نیکی دے دے اور ان کا آخرت میں کوئی حصّہ نہیں ہے. اور بعض کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اورآخرت میں بھی اور ہم کو عذاب جہّنم سے محفوظ فرما. یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی کمائی کا حصّہ ہے اور خدا بہت جلد حساب کرنے والاہے.
قرآن مجید میں ۶۷ مقامات پر مادہ ”کسب“ اور اس کے مشتقات کا استعمال کیاگیاہے۔ ان کے مطالعہ سے نتیجہ نکلتاہے کہ لفظ کسب جسمانی کاموں کے علاوہ روحانی اور قلبی امور میں بھی استعمال ہوتاہے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۵ مےں ہے:
”ولکن یؤاخذ کم بما کسبت قلوبکم“
لیکن جو تمہارے دل کسب کرتے ہیں اس پر ہم تمہارا مواخذہ کریں گے
سورہ نساء کی آیہ ۱۱۱ میں ہے۔
”وَمَنْ یَکْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا یَکْسِبُہُ عَلَی نَفْسِہِ “
جو شخص کسب گناہ کرتاہے وہ اپنے ہی نقصان میں کسب کرتاہے
اس بناء پر دعا اور خواہش بھی ایک طرح کا کسب و اکتساب ہے ۔ علاوہ ازیں حقیقی دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ پورے وجود انسانی سے ہوتی ہے۔
زیر بحث آیت کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ہے وہ یہ کہ لفظ ”اولئک “ صرف دوسرے گروہ کی طرف اشارہ ہو جو دنیا و آخرت دونوں کے در پے ہے جو مادیت و معنویت کو ایک دوسرسے ملا دیتاہے یہ ان لوگوں کا گروہ ہے جو نہ صرف مادی ہیں اور نہ صرف تارک دنیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی مساعی نتیجہ و ثمر تک پہنچتی ہیں اور وہ ان سے بہرہ ور ہوتے ہیں لیکن دوسرے لوگوں کی زحمتیں اور کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔
”و اللہ سریع الحساب“
پروردگار کی جانب سے آیت کے آخری حصے میں سرعت حساب کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ ایک روایت میں آیاہے کہ خدا چشم زدن میں سب کا حساب کردے گا:۔
”ان اللہ تعالی یحاسب الخلائق کلھم فی مقدار لمح البصر“۱
یہ اس بناء پرہے کہ خداوند عالم مخلوقات کی طرح نہیں ہے۔ مخلوقات کا وجود اور ہستی چونکہ محدود ہے اس لیے جب وہ ایک معاملے میں مشغول ہوں تو دوسرے سے غافل ہوجاتی ہیں جب کہ خدا تعالی یوں نہیں ہے۔
علاوہ ازیں محاسبے کے لیے پروردگار کو کسی زمانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے کیونکہ ہمارے اعمال کا اثر جسم و جان ، ہمارے ارد گرد کے موجودات ، زمین اور ہوا کی موجود میں باقی ہے۔
حقیقت میں معاملہ ان خود کار مشینوں کا ساہے جن کی کارکروگی (Out put)ان کے ساتھ ساتھ گھومنے والے نمبر سے ظاہر ہوجاتی ہے۔
۲۰۳ وَاذْکُرُوا اللهَ فِی اٴَیَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِی یَوْمَیْنِ فَلاَإِثْمَ عَلَیْہِ وَمَنْ تَاٴَخَّرَ فَلاَإِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنْ اتَّقَی وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ
ترجمہ
۲۰۳۔ اور خدا کو معین دنون (۱۱،۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ) میں یاد کرو اور جو لوگ جلدی کریں اور (ذکر خدا کو) دونوں میں انجام دیں ان پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کریں( اور تین دن انجام دیں) ان پر بھی کوئی گناہ نہیں (یہ ان کے لیے ہے) جو تقوی اختیار کریں۔ نیز خدا سے ڈرو اور جان لو کہ تم اس کی طرف محشور ہوگے۔
۱ مجمع البیان؛ اس آیت کی ذیل میں۔