Tafseer e Namoona

Topic

											

									  گناہ اور ثواب دوگنا کیوں؟

										
																									
								

Ayat No : 28-31

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ۲۸وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا ۲۹يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا ۳۰وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ۳۱

Translation

پیغمبر آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں متاغِ دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں. اور اگر اللہ اور رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے. اے زنان هپیغمبر جو بھی تم میں سے کِھلی ہوئی برائی کا ارتکاب کرے گی اس کا عذاب بھی دہرا کردیا جائے گا اور یہ بات خد اکے لئے بہت آسان ہے. اور جو بھی تم میں سے خدا اور رسول کی اطاعت کرے اور نیک اعمال کرے اسے دہرا اجر عطا کریں گے اور ہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے.

Tafseer

									  گناہ اور ثواب دوگنا کیوں؟ 
 ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اوپر والی آیات اگرچہ پیغمبر کی ازواج کے بارے میں کہتی ہیں کہ اگر وہ خدا کی اطاعت کریں 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    مفردات راغب ، مادہ قنوت۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تو ان کا اجر کئی گنا ہے اور اگر کسی آشکارا گناہ کا ارتکاب کریں تو ان کی سزاکئی گناہ ملے گی ۔ لیکن چونکہ اصل معیار تو مقام و مرتبہ اور اجتماعی حیثیت کا حامل ہوتا ہے لہذا یہ حکم 

ان افراد کے بارے میں بھی صادق آتا ہے جو معاشرے میں اچھی حیثیت اور مقام کے حامل ہوتے ہیں۔ 
 اس قسم کے افراد کا تعلق صرف اپنی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ان کا وجود دو جہات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک جہت تو خود انھیں کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے اور دوسری 

جہت معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ لہذا ان کی زندگی کا طرز عمل ہوسکتا ہے کہ کسی گروہ کو ہدایت یا کسی کو گمراہ کر دے ۔ اسی بناء پر ان کے اعمال دوہرا اثر رکھتے ہیں یعنی ایک 

تو انفرادی اثر اور دوسرا اجتماعی۔ اسی لیے ان میں سے ہرعمل جدگانہ اجر یا سزا کا حامل ہوتا ہے۔ 
 ایک حدیث میں امام جعفرصادق علیہ ا لسلام فرماتے ہیں: ۔ 
  " يغفر للجاهل سبعون ذنبًا قبل ان یغفرللعالم ذنب واحدً 
  ”جاہل کے ستر گناه بخشے جائیں گے اس سے پہلے کہ عالم کا ایک گناہ  بخشا جائے"۔ ؎1 
 اس سے قطع نظر ہمیشہ علمی سطح اور سنرا و جزاء کے درمیان قریبی رابطہ رہا ہے جیسا کہ بعض احادیث میں آیا ہے:
  "ان الشواب على قدرالعقل" 
  "اجر انسان کی عقل و آگاہی سے ملتا ہے" ؎2 
 ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : 
  "انمايداق الله العباد في الحساب يوم القيامة على قدر ما أتاهم من 
  العقول في الدنيا" 
  "خداوند عالم قیامت کے دن بندوں کا حساب دنیا میں انہیں دی گئی عقل کے مطابق لے گا"۔ ؎3 
 یہاں تک کہ ایک روایت میں امام جعفرصادق علیہ اسلام سے منقول ہے :
 "عالم کی توبہ بعض مراحل میں قبول نہیں ہوگی (پھر اس آیہ شریفہ سے آپ نے ا ستنا و فرمایا)۔ "انما التوبة على الله للذين يعملون السوء بجهالة" (توبہ تو صرف ان 

لوگوں کے لیے ہے جو جہات سے اور نادانی سے برا کام انجام دیتے ہیں). (نساء ۔۔۔۔۔ 17) ۔ ؎4
 یہاں پرواضح ہوجاتا ہے کہ ممکن ہے "مضاعف" یا "مرتين" کا مفہوم بیان ثواب و عقاب کی 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1  اصول کافى جلد اول ص 37 (باب لزوم الحجۃ على العالم) ۔
  ؎2  اصول کافى جلد اول ص 9 کتاب العقل والجہل ۔
  ؎3  اصول کافى جلد اول ص 9 کتاب العقل والجہل۔
  ؎4  اصول کافى جلد اول ص 37 (باب لزوم الحجۃ على العالم)۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
افزائش ہے۔ کبھی دوگنا اور کبھی اس سے زیادہ ، بالکل ان اعداد کی طرح جن میں "کثرت" کا مفہوم ہوتا ہے خصوصًا راغب اپنی كتاب مفردات میں "ضعف" کے معنی کے بارے میں کہتے 

ہیں: 
  "صناعفته ضممت اليہ مثله فصاعدًا "
  "میں نے اسے مضاعف کیا یعنی اس کی مانند یا بیشتر اورکئی گنا کا اس میں اضافہ کیا"۔ 
 مذکورہ روایت جس میں ہم نے عالم و جاہل کے گناہ کے فرق کے بارے میں ستر تک کے برابر کا ذکر کیا ہے، اس مدعا پر ایک اور گواہ ہوا ہے۔ 
 اصولی طور افراد کی اجتماعی حیثیت اور ان کا معاشرتی مرتبہ نیز معاشرے میں ان کا اسوہ اور نمونہ ان کی سزا و جزا میں کمی بیشی کا سبب بن جاتاہے۔ 
 اس بحث کو ہم امام سجاد علیؑ بن الحسین علیہ السلام کی ایک حدیث پر ختم کرتے ہیں۔ کسی نے امام سے عرض کیا : 
  "انكم اهل بیت مغفورلكم"۔ 
  آپ کا وہ خاندان ہے جسے خدا نے بخش دیا ہے"۔ 
 امام غصے میں آکر فرمانے لگے :
  "نحن احری ان یجری فینا ما اجری الله في أزواج النبی( ؐ ) من ان 
  نكون كما تقول : أنانری لمحسننا ضعفين من الأجر ولمسيئنا ضعفين 
  من العذاب، ثم قرءالا يتين" 
  خداوند عالم نے جو حکم ازواج پیغمبر کے بارے میں جاری کیا ہے ، ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ 
  وہ ہمارے بارے میں بھی جارہی ہو، نہ اس طرح جیسے تو کہتا ہے۔ ہم اپنےنیکوکاروں کےلیے دوہرےاجرکے 
  اور بدکاروں کے کیلئے دوگنا عذاب اور سزا کے قائل ہیں ۔ پھر آپ نے شاہد کے طور پر زیر بحث دو آیات کی
  تلاوت فرمائی ۔ ؎1
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

-
  ؎1    مجمع البیان جلد 8 ص 354 زیربحث آیت کے ذیل میں ۔0