Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ دُنیا کی فریب کاری

										
																									
								

Ayat No : 33-34

: لقمان

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ۳۳إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۳۴

Translation

انسانو! اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن سے ڈرو جس دن نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آسکے گا بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے لہٰذا تمہیں زندگانی دنیا دھوکہ میں نہ ڈال دے اور خبردار کوئی دھوکہ دینے والا بھی تمہیں دھوکہ نہ دے سکے. یقینا اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی پانی برساتا ہے اور شکم کے اندر کا حال جانتا ہے اور کوئی نفس یہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کسی کو نہیں معلوم ہے کہ اسے کس زمین پر موت آئے گی بیشک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے.

Tafseer

									اس میں شک نہیں کہ زندگانی دنیا کے بہت سے مظاہر غرور آمیز ہو تے ہیں اور غفلت پیدا کرتے ہیں اور کبھی کبھار تو اس طرح انسان کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں کہ اپنے ماسواباقی ہر ایک چیز سے غافل کردیتے ہیں۔ 
اسی بناء پر بعض اسلامی روایات میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس وقت آپ سے لوگوں نے سوال کیا ”ای النّاس اثبت راٴیاً“ کون شخص تمام لوگوں میں سے صاحب فکرورائے اور تدبیر کے لحاظ سے زیادہ ثابت قدم ہے توآپ نے فرمایا ”من لم یغرہ النّاس من نفسہ ولہ تغرہ الدّنیا بتشویقھا“ وہ شخص کہ جسے فریب کار لوگ فریب نہ دے سکیں اور دُنیا کی رغبت اسے دھوکہ نہ دے سکے (۱) 
لیکن اس کے باوجود اسی فریب کاردُنیا کے مختلف مناظر کے اندرزبان حال سے بولنے والے کچھ ایسے مناظر بھی ہیں جو اس جہاں کی ناپائیداری اور اس کے کھوکھلے زرق وبرق کو واضح ترین انداز میں بیا کرتے ہیں ۔ وہ حوادث جوہر ہوش مند انسان کو بیدار کر سکتے ہیں بلکہ جو ہوش مندنہیں انھیں بھی ہوشیار کریتے ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے کسی سے سُنا کہ وہ دنیا کی خدمت کررہا تھا اور اسے فریب کار بتارہاتھا تو آپ نے اس کی طرف متوجہ ہو کرفرمایا: 
ایھا الذام للدنیا المغتر بغرورھا، المخدع باباطلیھا، اتغتر بالدنیا ثمّ تذمھا؟ اٴنت المتجرم علیھا اٴم ھی المجترمة علیک؟ متیٰ استھوتک؟ اٴم متی غرتک؟ اٴبمصارع اٰبائک من البلیٰ اٴم بمضاجع اٴمھاتک تحت الثریٰ....؟
انّ الدنیا دار صدق لمن صدقھا، ودار عافیة لمن فھم عنھا، ودار غنی لمن تزود منھا، ودار موعظة لمن اتعظ بھا، مسجد احبّاء الله ومصلی ملائکة الله، ومھبط وحی الله، ومتجر اٴولیاء الله....“
”اے دنیا کی مذمت کرنے والے! اس کی دل فریبیوں کے فریب خوردہ، اس کی رام کہانیوں کا دھوکہ کھائے ہوئے! کیا بات ہے کہ دنیا پر فریفتہ بھی ہو اور اس کی مذمت بھی کررہے ہو؟ کیا تم اس پر گناہ کی تہمت لگارہے ہو یا وہ تمھیں مجرم ٹھہرا رہی ہے؟ اس نے تمھیں کب متوالا کیا؟ یا کب تمھارا دل لبھایا؟ کیا اس وقت جب تمھارے آباء سال خوردہ ہوکر ڈھیر ہوئے یا اش وقت جب تمھاری مائیں (منوں) مٹی کے نسچے ہمیشہ کو سوگئیں ؟ اور کتنے ہی مریضوں کی ہاتھوں سے تیمار داری ؟ تم چاہتے تھے کہ وہ شفایاب ہو جائیں اور ان کے علاج کے لیے اطبّاء سے مشورے طلب کرتے پھرتے تھے۔ وہ بھی اس دن جب سے تمھاری دوا ان کے کسی کام نہ آئی اور تم اپنا زورلگا بیٹھے، مگر کسی کو (موت سے) نہ بچاسکے۔ اور دنیا نے اس (مرنے والے) کو تمھارے لیے مثال بنادیا اور اس کی موت کو تمھاری موت کا تقشہ بنادیا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا نباہ کا گھر ہے۔ مگراس کے لیے جو اس سے نباہ کرے اور دارِعافیّت ہے اس کے لیے جو اس کی حقیقت کو سمجھ لے اور دولت کدہ ہے اس کا جو اس سے زادِ آخرت حاصل کرسکے۔ اور عبرت کا گھرہے اس کے لیے جواس سے سبق سیکھ لے۔(دنیا) خدا کے دوستوں کی مسجدہے، اللہ کے لائکہ کی جائے نماز ہے، وحی خدا کے اترنے کی جگہ ہے اور خدا کے ادلیاء کی تجات گاہ ہے“۔
 ۱۔ من لایحضرہ الفقیہ (بحوالہٴ نور الثقلین، ج۴، ص۲۱۷) .