حدود الهی
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ۱۸۷
تمہارے لئے ماہ رمضان کی رات میں عورتوں کے پاس جانا حلال کر دےا گےا ہے۔ہو تمہارے لئے پردہ پوش ہیں اور تم انکے لئے ۔خدا کو معلام ہے کہ تم اپنے ہی نفس سے خیانت کرتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کرکے تمہےں معاف کر دےا۔ اب تم بہ اطمینان مباشرت کرو اور جو خدا نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی آرزو کرو اوراس وقت تک کھا پی سکتے ہوجب تک فجر کا سیاہ ڈورا ،سفید ڈورے سے نمایاں نہ ہو جائے۔ اس کے بعد رات کی سیاہی تک روزہ کو پورا کرو اور خبردار مسجدوںمیں اعتکاف کے موقع پر عورتوں سے مباشرت نہ کرنا۔یہ سب مقررہ حدود الٰہی ہیں ۔ان کے قرےب بھی نہ جانا ۔اللہ اس طرح اپنی آیتوں کو لوگوں کے لئے واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ شاید وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں.
جیسا کہ مندر جہ بالا آیت میں ہم نے پڑ ھاہے روزے اور اعتکاف کے کچھ احکام بیان کرنے کے بعد انہیں خدائی سر حدیں قرار دیا گیا ہے۔ حلال و حرام کے در میان سر حد، مجاز و ممنوع کے در میان سر حد۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ سر حدوں کو عبور نہ کرنا بلکہ کہا گیا ہے ان کے قریب نہ جانا کیونکہ سرحد کے قریب ہونے سے کبھی شہوت کی زیادتی کے باعث اور کبھی شک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان ان سے آگے گز رجاتا ہے۔ لہذا فرمایا گیا ہے(فلا تقربوھا) اور شاید اسی بناء پر قوانین اسلامی میں ایسی جگہوں میں قدم رکھنے سے منع کیا گیا ہے جو انسان کی لغرش اور گناہ کا موجب اور سبب ہیں مثلا مجالس گناہ میں شرکت حرام ہے چا ہے خود انسان ظاہرا آلودہ گناہ نہ ہو ۔ اسی طرح اجنبی عورت سے خلوت کو حرام قرار دیا گیا ہے (کسی اجنبی خاتون کے ساتھ ایسی تنہائی جو مکمل طور پر علیحدہ ہو اور جہاں دو سرے لوگ آجانہ سکتے ہوں)۔
یہی مفہوم دو سری احادیث میں حمایت کمی (ممنوعہ علاقے کی چار دیواری کی حفاظت) کے عنوان سے بیان ہوا ہے پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:
ان حمی اللہ محارمہ فمن وقع حود الحمی یوشک ان یقع فیہ
محرمات الہی اس کی چار دیواریاں میں اگر کوئی شخص ان حدود خانہ کے گرد اپنی بھیڑ بکریاں لے جائے تو اس کا ڈر ہے کہ وہ ممنوعہ علاقے میں چلی جائیں۔۱
اسی لئے اصول تقوی کی پا بند اور پرہیزگار لوگ نہ صرف یہ محرمات کہ کے مرتکب نہیں ہو تے بلکہ حرام کے نزدیک بھی قدم نہیں رکھتے۔
۱۔ تفسیر صافی، زیر بحث آیت کے ذیل میں۔