زندگی میں وصیت کو بدلا جاسکتاہے
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ۱۸۰فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۱۸۱فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۱۸۲
تمہارے اوپر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی مال چھوڑا ہے تواپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کردے یہ صاحبانِ تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے. اس کے بعد وصیت کو سن کر جو شخص تبدیل کردے گا اس کا گناہ تبدیل کرنے والے پر ہوگا تم پر نہیں. خدا سب کا سننے والا اور سب کے حالات سے باخبر ہے. پھر اگر کوئی شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے طرفداری یا ناانصافی کا خوف رکھتاہو اور وہ ورثہ میں صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے. اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.
قوانین اسلام کی روسے وصیت کرنے والا اپنی پہلے سے کی گئی وصیت کا پابند نہیں بلکہ اپنی زندگی میں وہ اسے بدل بھی سکتاہے ۔ وہ وصیت کی مقدار اور کیفیت اور اپنے وصی کے سلسلے میں نظر ثانی کرسکتاہے کیونکہ ممکن ہے وقت گزرنے کے ساتھ اس بارے میں مصلحتیں بدل گئی ہوں۔