Tafseer e Namoona

Topic

											

									  و صیت کا فلسفہ

										
																									
								

Ayat No : 180-182

: البقرة

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ۱۸۰فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۱۸۱فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۱۸۲

Translation

تمہارے اوپر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی مال چھوڑا ہے تواپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کردے یہ صاحبانِ تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے. اس کے بعد وصیت کو سن کر جو شخص تبدیل کردے گا اس کا گناہ تبدیل کرنے والے پر ہوگا تم پر نہیں. خدا سب کا سننے والا اور سب کے حالات سے باخبر ہے. پھر اگر کوئی شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے طرفداری یا ناانصافی کا خوف رکھتاہو اور وہ ورثہ میں صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے. اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.

Tafseer

									قانون میراث سے صرف کچھ معین رشتے دار بہرہ مند ہوتے ہیں جب کہ ممکن ہے خاندان کے اور افراد یا بعض اوقات قریبی دوست احباب مالی امداد کی سخت احتیاج رکھتے ہوں اسی طرح ورثہ میں سے بھی کبھی وراثت کا حصہ کی ضروریات کی کفالت نہیں کرسکتا لہذا قانون اسلام کی جامعیت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ خلا پر نہ ہو، اسی لئے اس نے قانون میراث کے ساتھ ساتھ قانون وصیت بھی رکھاہے اور مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے مال کے تیسرے حصے کے متعلق اپنے بعد کے لئے کوئی مستحکم پروگرام بنائیں اور اسے اپنے مقصد میں صرف کریں۔
علاوہ ازیں بعض اوقا ت انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کوئی اچھا کام انجام دے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اپنی مالی ضروریات کے پیش نظر ایسا نہیں کرپاتا تو عقلی منطق واجب قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے ان اموال سے جن کے حصول کے لئے اس نے زحمت اٹھائی ہے کار خیر کے انجام دینے سے بالکل محروم نہ ہو۔
ان سب امور کی وجہ سے اسلام میں قانون وصیت رکھا گیاہے اور اس کی اس حد تک تاکید کی گئی ہے کہ اسے ایک وجوبی اور ضروری حکم کی حد تک پہنچا دیاگیاہے اور ”حقا علی المتقین“ کے جملے سے اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔
وصیت صرف مندرجہ بالا امور میں منحصر نہیں بلکہ انسان کو چاہئیے کہ وہ اپنے قرض اور ان امانتوں کے متعلق جو اسے سپرد کی گئی ہیں اور دیگر امور کے بارے میں اپنی وصیت کو واضح طور پر بیان کرے۔ اس طرح سے کہ حقوق الناس اور حقوق اللہ میں سے اس کی کوئی ذمہ داری مبہم نہ رہ جائے۔
روایات اسلامی میں وصیت کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک روایت میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے آپ نے فرمایا: ما ینبغی لامرء مسلم ان یبیت لیلة الا وصیتہ تحت راسہ
کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ رات سوئے مگر اس کا وصیت نامہ اس کے سرکے نیچے نہ ہو۔۱
سرکے نیچے ہونا، یہاں تاکید کے لئے ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وصیت نامہ تیار رکھنا چاہئیے۔
ایک اور روایت میں ہے:
من مات بغیر وصیة مات میتتہ جاہلیة
جو شخص بغیر وصیت کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔۲

 

۱ وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۲
۲ وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۲