تشویق به عفو
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَىٰ بِالْأُنْثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۱۷۸وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۱۷۹
ایمان والو! تمہارے اوپر مقتولین کے بارے میں قصاص لکھ دیا گیا ہے آزادکے بدلے آزاد اورغلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت. اب اگرکسی کو مقتول کے وارث کی طرف سے معافی مل جائے تو نیکی کا اتباع کرے اور احسان کے ساتھ اس کے حق کو ادا کردے. یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے حق میں تخفیف اور رحمت ہے لیکن اب جو شخص زیادتی کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب بھی ہے. صاحبانِ عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے کہ شاید تم اس طرح متقی بن جاؤ.
اس کی وضاحت یہ ہے کہ زیادہ تر مرد ہی خاندان کا اقتصادی عضو مؤثر ہوتاہے اور مرد ہی خاندان کے اخراجات اٹھاتاہے اور مرد ہی اپنی اقتصاد ی کار کردگی سے خاندان کی زندگی کا کارخانہ چلاتاہے۔ اس بناء پر مرد اور عورت کے ختم ہونے میں اقتصادی پہلو کا جو فرق ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھاجائے تو مقتول مرد کے بیگناہ پسماندگان اور آل اولاد آخر کس جرم میں خسارہ اٹھائیں گے۔ اسلام نے مرد سے عورت کے قتل کا قصاص لینے کی صورت میں آدھی دیت دینے کا قانون معین کرکے سب لوگوں کے حقوق کا لحاظ رکھاہے اور اس طرح ایک خاندان کو جو نا قابل تلافی نقصان ہورہاتھا اس کا ازالہ کیاگیاہے۔ اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ لفظ مساوات کے بہانے دوسرے کے حقوق پائمال ہوں جیسے اس شخص کی اولاد کے حقوق جس سے قصاص لیا جارہاہے۔
(iv) اس مقام پرلفظ ”اخیہ“ کا استعمال: ایک اور نکتہ جو یہاں اپنی طرف متوجہ کرتاہے وہ یہاں لفظ اخیہ کا استعمال ہے ۔ قرآن برادری کے رشتے کو انسانی معاشرے میں اتنا محکم سمجھتاہے کہ اس کے نزدیک خون نا حق بہانے کے با وجود یہ برقرار رہتاہے لہذا اولیاء مقتول کی انسانی جذبات کو ابھارنے کے لئے انہیں قاتل کو بھائے کہہ کر متعارف کراتاہے اور اس طرح انہیں عفو و مدارات کا شوق دلاتاہے۔ البتہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ہیجان اور غضب و غصے کی حالت میں ایسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اس پر پشیمان ہوں لیکن وہ مجرم جو اپنے کا م پر فخر کریں اور نادم نہ ہوں، بھائی کہلانے کے لائق نہیں اور نہ ہی عفو و درگذر کے مستحق ہیں۔
۱۸۰۔کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًان الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِین
۱۸۱۔ فَمَنْ بَدَّلَہُ بَعْدَمَا سَمِعَہُ فَإِنَّمَا إِثْمُہُ عَلَی الَّذِینَ یُبَدِّلُونَہُ إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ
۱۸۲۔ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا اٴَوْ إِثْمًا فَاٴَصْلَحَ بَیْنَہُمْ فَلاَإِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
ترجمہ
۱۸۰۔ جب تم میں سے کسی کی موت کا دقت قریب آئے تو چاہئیے کہ وہ ماں اور رشتہ داروں کے لئے شائستہ طور پر وصیت کرے۔ یہ حق ہے پرہیزگاروں پر۔
۱۸۱۔ پھر جس نے وصیت سن کراسے بدل ڈالا اس کا گناہ (وصیت) بدلنے والے پرہے۔ خدا تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔
۱۸۲۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وصیت کرنے والے نے انحراف (بعض ورثہ کی طرف ایک طرفہ میلان) یا گناہ (کسی غلط چیز کے لئے وصیت ) سے کام لیاہے اور وہ ورثہ کے در میان صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں (اور اس پروصیت کے تبدیلی کا قانون لاگونہ ہوگا) خدا بخشنے والا مہربان ہے۔