یہاں یہ مشہور سوال سامنے آتا ہے کہ ہم ہمیشہ خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کی درخواست کرتے رہتے ہیں، کیا ہم گمراہ ہیں؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۱الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۲الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۳مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۴إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۵اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۶صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۷
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے. ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے. وہ عظیم اوردائمی رحمتوں والا ہے. روزِقیامت کا مالک و مختار ہے. پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ا ور تجھی سے مدد چاہتے ہیں. ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ. جو اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں.
یہاں یہ مشہور سوال سامنے آتا ہے کہ ہم ہمیشہ خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کی درخواست کرتے رہتے ہیں، کیا ہم گمراہ ہیں؟ اور اگر بالفرض یہ بات ہمارے لئے درست ہے تو پیغمبر اکرم(ﷺ) اور ائمہ اہل بیت جو انسان کامل کا نمونہ ہیں، ان کے لئے کیونکر صحیح ہے؟؟
اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں :
جیسے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان کے لئے راہ ہدایت میں ہر لمحہ لغزش و کجروی کا خوف ہے لہذا چاہئے کہ اپنے آپ کو پروردگار کے اختیار میں دے دے اور اس سے تقاضا کرے کہ وہ اسے سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھے۔ ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وجود ہستی اور دیگر تمام نعمات لمحہ بہ لمحہ اس مبداء عظیم ہی سے ہم تک پہنچی ہیں۔ اس سے قبل بھی کہا جا چکا ہے کہ ہماری اور تمام موجودات کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ بلب کی روشنی مسلسل پھیل رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر لحظہ بجلی کے مرکز سے قوت حاصل کر رہی ہے کیونکہ بجلی کے مرکز سے ہر لحظہ نئی روشنی کی تولید جاری ہے اور یہ مربوط تاروں کے ذریعہ اسے بلب تک پہنچاتا ہے۔ ہمارا وجود بھی بلب کی روشنی کی طرح ہے جو بظاہر ایک مستقل پھیلے ہوئے وجود کی طرح ہے لیکن حقیقت میں ہمیں مرکز ہستی، آفریدگار فیاض سے ہر لحظہ ایک نیا وجود ملتا رہتا ہے۔ چونکہ ہمیں ہر لمحہ ایک تازہ وجود میسر آتا ہے اس لئے ہر لمحہ ہم نئی ہدایت کے محتاج ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ خدا اور ہمارے درمیان رابطے کی معنوی تاروں میں اگر کوئی مانع پیدا ہوجائے مثلا بے راہ روی، ظلم، ناپاکی وغیرہ تو اس سے منبع ہدایت کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور یوں ہم صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں گے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ موانع پیش نہ آئیں اور ہم صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہدایت کے معنی ہیں طریق تکامل کو طے کرنا یعنی انسان تدریجا مراحل نقص پیچھے چھوڑتا جائے اور مراحل بلند تک پہنچتا جائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راہ کمال، یعنی ایک کمال سے دوسرے کمال تک پہنچنے کا راستہ نامحدود ہے۔ گویا یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔
اس بنا پر کوئی تعجب نہیں کہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام بھی خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کا تقاضہ کریں کیونکہ کمال مطلق تو صرف ذات خدا ہے اور باقی سب بلا استثناء سیر تکامل میں ہیں۔ لہذا کیا حرج ہے کہ وہ بھی خدا سے بالاتر درجات کی تمنا کریں۔
کیا ہم نبی اکرم (ﷺ( پر درود و سلام نہیں بھیجتے؟ اور کیا درود در اصل محمد و آل محمد پر پروردگار عالم سے نئی رحمت کا تقاضا نہیں؟ ؟ کیا رسول اللہ نہیں فرماتے تھے:
رب زدنی علما۔
خدایا میرے علم(اور ہدایت)کو زیادہ فرما۔
کیا قرآن یہ نہیں کہتا :
و یزید اللہ الذین اھتدوا ھدی۔ (مریم، ۷۶)
یعنی: خدا ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ بھی قرآن میں ہے :
و الذین اھتدوا ازادھم ھدی و اتاھم تقواھم۔ (محمد، ۱۷)
یعنی : جو ہدایت یافتہ ہیں خدا ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں تقوی عطا کرتا ہے۔
اسی سے نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام پر درود بھیجنے کے متعلق سوال کا جواب مل جاتا ہے۔
ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کی وضاحت کے لئے ذیل کی دو حدیثوں کی طرف توجہ فرمائیں :
۱۔ حضرت امیرالمومنین علی(علیہ السلام) جملہ اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :
یعنی آدم لنا توفیقک الذی اطعناک بہ فی ماضی ایامنا حتی نطیعک کذلک فی مستقبل اعمادنا۔
خداوندا جو توفیقات تو نے ماضی میں ہمیں عنایت کی ہیں ، جن کی برکت سے ہم نے تیری اطاعت کی ہے انہیں اسی طرح برقرار رکھ تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہیں۔(بحوالہ: تفسیر صافی (آیہ مذکورہ) بحوالہ معانی الاخبار و تفسیر امام حسن عسکری)۔
۲۔ حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :
یعنی ارشدنا للزوم الطریق الموٴدی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والمانع من ان نتبع اھوائنا فنعطب او ان ناخذ بآرائنا فنھلک۔
خداوندا ہمیں اس راستہ پر جو تیری محبت اور جنت تک ہے، ثابت قدم رکھ کہ یہی راستہ ہلاک کرنے والی خواہشات اورانحرافی و تباہ کرنے والی آراء سے مانع ہے۔ایضا)۔