۱۔ صرف ایک قیادت
وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَذِيرًا ۵۱فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ۵۲وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا ۵۳وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا ۵۴وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا ۵۵
اور ہم چاہتے تو ہر قریہ میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے. لہذا آپ کافروں کے کہنے میں نہ آئیں اور ان سے آخر دم تک جہاد کرتے رہیں. اور وہی خدا ہے جس نے دونوں دریاؤں کو جاری کیا ہے اس کا پانی مزیدار اور میٹھا ہے اور یہ نمکین اور کڑواہے اور دونوں کے درمیان حدُ فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے. اور وہی وہ ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا ہے اور پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنا دیا ہے اور آپ کا پروردگار بہت زیادہ قدرت والا ہے. اور یہ لوگ پروردگار کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور کافر تو ہمیشہ پروردگار کے خلاف ہی پشت پناہی کرتا ہے.
زیر نظر پہلی آیت میں خدا وندعالم کا یہ فرمان ہے کہ ” اگر ہم چاہتے تو ہر شہر او ردیار میں ڈرانے والا پیغمبر بھیج دیتے “ لیکن ایسا نہیں کیا ۔
یقینا یہ صرف اس لئے ہے کہ انبیاء امتوں کے راہبر اور راہنما ہوا کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ کسی قوم کے مسئلہ قیادت میں تفر قہ اور انتشار اس قوم کی کمزوری کا سبب بن جا تا ہے خا ص کر جب مسئلہ ختم نبوت کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کی حیثیت اور اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایسی قیادت کو تو تا قیامِ قیامت بر قرار رہنا ہے ۔
ایک قائد اور رہبر تمام منتشر طاقتوں کو یکجا کرتا ہے انھیں وحدت اور اتحاد کا سبق دیتا ہے در حقیقت قیادت اوررہبری کی وحدت انسانی معاشرے میں توحید کی حقیقت کومنعکس کرتی ہے ، جو ایک طرح سے شرک ، تفرقہ اور نفاق کے بر عکس ہے ۔
سورہٴ فاطر کی آیت ۲۴ میں ہے :
و ان من امة الا خلا فیھا نذیر
ہر امت میں ایک ڈرانے وا لا نبی گزرا ہے ۔
یہ مندرجہ بالا بحث کے قطعاً متضاد نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں ہر امت کی بات ہو رہی ہے ہر شہ راور دیار کی نہیں ۔
اگر انبیاء کے بارے میں صرف نظر کر کے نچلے درجے کی طرف نگاہ کریں تو وہاں بھی یہی اصول کار فرمانظر آتا ہے جو قومیں اپنے لیڈر کے لحاظ سے تشت اور افتراق کا شکار ہوئی ہیں وہ اپنی طاقت اور توانائی کھودینے کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں میں انتشار کا شکار ہو چکی ہیں ۔