Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ معبود سے کیا مراد ہے ؟

										
																									
								

Ayat No : 17-19

: الفرقان

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ ۱۷قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا ۱۸فَقَدْ كَذَّبُوكُمْ بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا ۱۹

Translation

اور جس دن بھی خدا ان کو اور ان کے خداؤں کو جنہیں یہ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے سب کو ایک منزل پر جمع کرے گا اور پوچھے گا کہ تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ ازخود بھٹک گئے تھے. تو یہ سب کہیں گے کہ تو پاک اور بے نیاز ہے اور ہمیں کیا حق ہے کہ تیرے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنائیں اصل بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے بزرگوں کو عزّت دنیا عطا کردی تو یہ تیری یاد سے غافل ہوگئے اس لئے کہ یہ ہلاک ہونے والے لوگ ہی تھے. دیکھا تم لوگوں نے کہ تمہیں وہ بھی جھٹلا رہے ہیں جنہیں تم نے خدا بنایا تھا تو اب نہ تم عذاب کو ٹال سکتے ہو اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہو اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے گا اسے ہم بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے.

Tafseer

									اس سوال کے جواب میں مفسرین کے درمیان دو تفسیریں مشہور ہیں :
پہلی تفسیر تو یہ ہے کہ ان سے مراد انسانی معبود ( جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) یا شیطانی معبود (جیسے جنات) یا فرشتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو مشرکین کے مختلف گروہوں نے انتخاب کیا ہواتھا۔
چونکہ یہ صاحبان عقل و شعور ہیں لہٰذا ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی کیونکہ مشرکین کہتے ہیں کہ ان معبودوں ہی نے ہمیں اپنی عبادت کی طرف بلا یا ہے لہٰذا اتمام حجت کے طور پر ان سے پوچھا جائے گا کہ آیا ان کی یہ بات صحیح ہے تو وہ بڑی صراحت کے ساتھ اس کی تر دید کریں گے ۔ 
دوسری تفسیر جسے کچھ اور مفسرین نے ذکر کیا ہے یہ ہے کہ بروز قیامت خدا وند عالم ”بتوں“کو ایک طرح کی زندگی ، ادراک اور شعور عطا فرمائے گا تاکہ ان سے جوباز پرس کی جائے تو وہ اس کا بہتر طریقے پر جواب دے سکیں کہ خداوند ا ! ہم نے انھیں گمراہ نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی خواہشات ِ نفسانی اور کبرو غرور کی وجہ سے گمراہ ہو چکے ہیں ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جملہ تمام معبودوں کے لئے ہو خواہ وہ صاحبان ِ عقل و شعور ہیں اور جو اپنی زبان سے حقائق اور واقعات بیان کریں گے خواہ عقل و شعور سے عاری خدا کی مخلوق ہے اور جو زبان حال سے حقائق کو بیان کرے گی ۔
لیکن آیت میں پائے جانے والے قرائن پہلی تفسیر سے زیادہ ہم آہنگ ہیں کیونکہ افعال اور ضمائر بتا رہے ہیں کہ یہاں صاحبان عقل و شعور کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور فرشتوں جیسے معبودوں کے لئے زیادہ مناسب ہے ۔
اس کے علاوہ ” فقدکذبوکم“ (انھوں نے تمہیں جھٹلایا) کے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین نے پہلے یہ دعویٰ کیاکہ ان معبودوں نے ہمیں گمراہ کیا ہے اوراپنی عبادت کی دعوت دی ہے اوریہ بعید ہے کہ وہ ایسا دعویٰ پتھر اور لکڑٰ کے بنے ہوئے بتوں کے بارے میں کریں کیونکہ  جیساکہ ابراہیم علیہ السلام کی داستان میںمذکور ہے کہ  انھیں اچھی طرح یقین ہے کہ بت بولا نہیں کرتے”لقد علمت ماھٰوٴلاء لاینطقون“ (سورہٴ انبیاء۶۵)
جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ خدا عیسیٰ علیہ اسلام سے دریافت فرمائے گا:
” ء انت قلت للناس اتخذونی و امی الٰھین من دون اللہ “
آیا تم نے لوگوں سے کہا ہے کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کا معبود بناوٴ؟(مائدہ۱۱۶)
معبودوں کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہویہ بات مسلم ہے کہ مشرکین اور بت پرستوں کے دعوے بے بنیاد اور فضول ہیں اور کسی معبود نے انھیں اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی ۔
پھر مزے کی بات یہ ہے کہ یہ معبود جواب میں یہ نہیں کہیں گے کہ خدایا ہم نے انھیں اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی بلکہ یہ کہیں گے کہ ہم نے تو اپنی عبادت کے لئے تیری ہی ذات کا اتخاب کیا تھا ، یعنی جب ہم خود تیری عبادت کرتے ہیں تو دوسروں کو تو بطریق اولیٰ تیرے غیر کی طرف راہنمائی نہیں کی۔ خاص کر یہ با” سبحانک“(تو پاک ہے )اور ” ماکان ینبغی لنا“ ( ہمارے لئے زیبا نہیں تھا)کے جملوں سے مربوط ہے جو ان کے ادب اور توحید کے اعتراف نمایا ں کرتی ہے ۔