۳۔ آیت میں جملہٴ شرطیہ کی جزائے محذوف
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ۶وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ۷وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ ۸وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ۹وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ ۱۰
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہوتا ہے تو ان کی اپنی گواہی چار گواہیوں کے برابر ہوگی اگر وہ چار مرتبہ قسم کھاکر کہیں کہ وہ سچےّ ہیں. اور پانچویں مرتبہ یہ کہیں کہ اگر وہ جھوٹے ہیں تو ان پر خدا کی لعنت ہے. پھر عورت سے بھی حد برطرف ہوسکتی ہے اگر وہ چار مرتبہ قسم کھاکر یہ کہے کہ یہ مرد جھوٹوں میں سے ہے. اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر وہ صادقین میں سے ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ہے. اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور وہ توبہ قبول کرنے والا صاحب هحکمت نہ ہوتا تو اس تہمت کا انجام بہت برا ہوتا.
آیات کی تفسیر میں جو وضاحت ہوچکی ہے اس سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں جو مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چار دفعہ الله کو شاہد قرار دے کر کہے کہ اگر وہ جھوتا ہو تو اس پر الله کی لعنت ہو ۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان احکام وقوانین کے اجراء کا تعلق عموماً ایک اسلامی ماحول اور مذہبی فضا ہے اور جب کوئی یہ دیکھے گا کہ اسے حاکمِ اسلامی کے سامنے اس طرح سے قطعی طور پر الله کی گواہی کے لئے بلانا ہے اور اپنے اوپر لعنت بھیجنا ہے تو اکثر اوقات وہ غلط اقدام سے بچے گا اور یہی چیز جھوٹے الزامات کے راستے میں دیوار بن جاتی ہے ۔
یہ بات تو مرد کے بارے میں تھی باقی رہا یہ کہ عورت اپنی صفائی کے لئے چار مرتبہ الله کو گواہ قرار دیتی ہے تو یہ مرد اور عورت میں برابری برقرار رکھنے کے لئے ہے، نیز عورت پر چونکہ الزام عائد کیا گیا ہے اس لئے وہ پانچویں مرحلے میں مرد کی عبارت سے زیادہ شدید الفاظ میں اپنا دفاع کرے گی اور جھوٹی ہونے کی صورت میں وہ اپنے لئے غضبِ خدا خریدے گی۔
اور ہم جانتے ہیں کہ لعنت سے مراد رحمتِ خدا سے دوری ہے لیکن غضب لعنت سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ غضب اور سزا وعذاب لازم وملزوم ہیں کہ جو رحمت سے دوری سے بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ سورہٴ فاتحہ کی تفسیر میں ہم کہہ چکے ہیں کہ ”مغضوب علیھم“ ”ضالین“ سے بدتر ہیں جبکہ مسلّم ہے کہ ”ضالین“ رحمتِ خدا سے دور ہیں ۔