شان نزول
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ۶وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ۷وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ ۸وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ۹وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ ۱۰
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہوتا ہے تو ان کی اپنی گواہی چار گواہیوں کے برابر ہوگی اگر وہ چار مرتبہ قسم کھاکر کہیں کہ وہ سچےّ ہیں. اور پانچویں مرتبہ یہ کہیں کہ اگر وہ جھوٹے ہیں تو ان پر خدا کی لعنت ہے. پھر عورت سے بھی حد برطرف ہوسکتی ہے اگر وہ چار مرتبہ قسم کھاکر یہ کہے کہ یہ مرد جھوٹوں میں سے ہے. اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر وہ صادقین میں سے ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ہے. اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور وہ توبہ قبول کرنے والا صاحب هحکمت نہ ہوتا تو اس تہمت کا انجام بہت برا ہوتا.
ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ابن عباس سے منقول ہے کہ:
)انصارکے سردار) سعد بن عبادہ رسول الله کی خدمت میں موجود تھے، کچھ اور اصحاب بھی بیٹھے تھے کہ انھوں نے عرض کیا: یا رسول الله! اس منافیِٴ عفت عمل کی نسبت کسی کی طرف دینے کی سزا عدم ثبوت پر اسّی کوڑے ہے تو اگر میں اپنے گھر میں داخل ہوں، اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ ایک فاسق شخص میری بیوی کے ساتھ مشغولِ بدکاری ہے تو اگر میں اسے اسی عالم میں چھوڑکر چار گواہ ڈھونڈے چلا جاوٴں تو واپسی تک وہ انپا کام کرچکا ہوگا اور اگر قتل کردوں تو گواہ کے بغیر کوئی میری بات قبول نہیں کرے گا اور مجھ سے قاتل کے طور پر قصاص لیا جائے گا جبکہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ بیان کروں تو میری پشت پر اسّی کوڑے لگیں گے ۔
رسول اکرم نے اس گفتگو سے حکمِ الٰہی پر ایک طرح کا اعتراض محسوس کیا، آپ نے انصار کی طرف رخ کرکے شکوے کے اندازمیں میں فرمایا: کیا تم نے سنا کہ تمھارے سردار نے کیا کہا ہے ۔
وہ معذرت خواہانہ انداز میں کہنے لگے: یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان، خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ یہ حکم الٰہی ہے اور حق ہے لیکن اس کے باوجود مجھے اس کی بنیاد پر تعجب ہوتا ہے (اور میں اپنے ذہن میں اس سوال کا حل نہیں کرسکا) ۔
رسول الله نے فرمایا: حکم خدا یہی ہے ۔
انھوں نے بھی عرض کی:”صدق الله ورسولہ؛ الله اور اس کے رسول نے سچ کہا“۔
ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سعد کا چچا زاد بھائی ہلال بن امیہ دروازے سے داخل ہوا، اُس نے رات کے وقت ایک فاسق شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا تھا ، وہ شکایت کے لئے رسول الله کی خدمت میں آیا تھا۔
اس نے صراحت سے کہا: میں نے اپنی آنکھ سے یہ کچھ دیکھا ہے اور اپنے کان سے ان کی آواز سنی ہے ۔
رسول الله اتنے ناراحت ہوئے کہ خشکی کے آثار چہرہٴ مبارک پر نمایاں ہوگئے ۔
ہلال نے عرض کی: میں آپ کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھ رہا ہوں لیکن قسم بخدا میں سچ کہہ رہا ہوں اور میں نے کچھ بھی جھوٹ نہیں کہا، مجھے امید ہے کہ الله اس مشکل کو خود حل فرمادے گا۔
بہرحال رسول الله نے ارادہ کیا کہ ہلال پر حدّقذف جاری کریں کیونکہ اس کے پاس اپنے دعویٰ پر گواہ موجود نہ تھے ۔
اس موقع پر انصار ایک دوسرے سے کہتے تھے دیکھا! وہی سعد بن عبادہ والی بات پوری ہوگئی تو کیا سچ مچ رسول الله پر وحی نازل ہوئی اور اس کے آثار آنحضرت کے چہرے پر ظاہر ہوئے، سب خاموش تھے کہ دیکھیں کہ الله کی طرف سے کیا نیا پیغام آیا ہے ۔
اس وقت مذکورہ بالا آیت نازل ہوئیں(1) ۔
1. ان آیات میں الله تعالیٰ نے اس مسئلے کے حل کے لئے مسلمانوں کو ایک دقیق راہ بتائی کہ جس کی تفصیل آپ ذیل میں پڑھیں گے ۔