Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔ قبولیت توبہ کی اہم شرط

										
																									
								

Ayat No : 4-5

: النور

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ۴إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۵

Translation

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ فراہم نہیں کرتے ہیں انہیں اسیّ کوڑے لگاؤ اور پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرنا کہ یہ لوگ سراسر فاسق ہیں. علاوہ ان افراد کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اپنے نفس کی اصلاح کرلیں کہ اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے.

Tafseer

									ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ توبہ صرف یہ نہیں کہ انسان گزشتہ گناہ پر استغفار کرے یا نادم ہو، یہاں تک کہ صرف آئندہ گنہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی توبہ نہیں ہے بلکہ توبہ میں یہ سب امور شامل ہیں اور ان کے علاوہ ضروری ہے کہ گناہگار گناہ کی تلافی کے درپے ہو ۔
اگر کسی نے واقعاً کسی پاکدامن عورت کی عزت ووقار کو تہمت کے ذریعے داغدار کیا ہے تو اپنی توبہ کی قبولیت کے لئے اسے چاہیے کہ ان تمام افراد کے سامنے اپنی باتوں کی تکذیب کرے جنھوں نے اس سے یہ تہمت سنی ہے، دوسرے لفظوں میں ان کی حیثیت وعزت بحال کرے ۔
لفظ ”تابوا“ کے بعد ”واصلحوا“ کا انا اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے افراد کو گناہ سے توبہ کرکے اس خرابی کی اصلاح بھی کرنا چاہیے جس کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک شخص برسر عام (یامطبوعات ونشریات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے) کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائے اور اس کے بعد خلوت میں جاکر استغفار کرے اور بارگاہِ الٰہی سے معافی چاہے، الله تعالیٰ اس قسم کی توبہ ہرگز قبول نہیں کرے گا ۔
اسی لئے چند روایات میں آئمہ اسلام سے منقول ہے کہ ان سے پوچھا گیا: جو لوگ کسی کی عزّت وناموس پر تہمت لگاتے ہیں کیا حدّشرعی کے اجراء اور توبہ کے بعد ان کی شہادت قابل قبول ہے؟
فرمایا: جی ہاں
اور جب سوال ہوا کہ ایسا شخص کس طرح سے توبہ کرے تو فرمایا: امام (یاقاضی) کے پاس آئے اور کہے: میں نے فلاں شخص پر تہمت لگائی ہے اور جو کچھ اس سلسلے میں میں نے کہا ہے اب اس سے توبہ کرتا ہوں (1) ۔
1۔ وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۲۸۳، کتاب الشہادات، باب۳۶، حدیث۴.