۳۔ سزا اور گناہ میں مناسبت
فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ ۱۰۱فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ۱۰۳تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ ۱۰۴
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتہ داریاں ہوں گی اور نہ آپس میں کوئی ایک دوسرے کے حالات پوچھے گا. پھر جن کی نیکیوں کا پلہّ بھاری ہوگا وہ کامیاب اور نجات پانے والے ہوں گے. اور جن کی نیکیوں کا پلہّ ہلکا ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے اور وہ جہنم ّ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں. جہنمّ کی آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی اور وہ اسی میں منہ بنائے ہوئے ہوں گے.
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ قیامت میں بلکہ اس جہان میں بھی عذاب الٰہی انجام کردہ گناہوں کی مناسبت سے ہوتا ہے، ایسا نہیں کہ جرم کچھ ہو اور سزا اس کے حسب حال نہ ہو ۔
زیر نظر آیات میں ہے کہ مجرموں کے چہرے جہنم کے شدید شعلوں سے اس طرح جلیں گے کہ سکڑ جائیں اور منھ کھلے کے کھلے رہ جائیں گے، یہ سزا سبک اور ہلکے وزن والے بے قیمت وبے ایمان لوگوں کے لئے ذکر ہوئی ہے، اگر توجہ کی جائے تو یہ وہی لوگ ہو ں گے کہ آیات الٰہی سن کر جن کے ماتھوں پر بل پڑجاتے ہیں گویا وہ اپنا منھ سکیڑ لیتے ہیں اور کبھی وہ آیات الٰہی سن کر مذاق اڑاتے ہیں، اور استہزاء کرتے ہیں، اس بات سے ان کے اعمال کی اس سزا سے مناسبت واضح ہوجاتی ہے ۔