Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ جس روز سب رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گے

										
																									
								

Ayat No : 101-104

: المؤمنون

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ ۱۰۱فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ۱۰۳تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ ۱۰۴

Translation

پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتہ داریاں ہوں گی اور نہ آپس میں کوئی ایک دوسرے کے حالات پوچھے گا. پھر جن کی نیکیوں کا پلہّ بھاری ہوگا وہ کامیاب اور نجات پانے والے ہوں گے. اور جن کی نیکیوں کا پلہّ ہلکا ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے اور وہ جہنم ّ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں. جہنمّ کی آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی اور وہ اسی میں منہ بنائے ہوئے ہوں گے.

Tafseer

									انسانوں کی مادی زندگی کی حدود میں جو مفاہیم کارفرما ہیں، اُس جہان میں زیادہ تر ختم ہوجائیں گے ۔ ان میں سے ایک خاندان اور قبیلے کا تعلق بھی ہے، اس دنیا میں یہ تعلق بہت سی مشکلات کے حل کا ذریعہ بنتا ہے اور بعض اوقات یہ تعلق خود ایک ایسا نظام بن جاتا ہے کہ معاشرے کے تمام نظاموں پر حاکم ہوجاتا ہے ۔
لیکن آخرت میں زندگی کی قدریں ایمان اور عمل صالح سے ہم آہنگ ہوگی، وہاں فلاں قبیلہ اور گروہ کا مسئلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، یہاں تو ایک خاندان کے افراد آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مشکلات سے نجات دلاتے ہیں، مگر قیامت میں ایسا نہ ہوگا وہاں نہ کثرت مال کوئی فائدہ پہنچاسکے گی اور نہ اولاد کسی کے کام آسکے گی جیسا کہ ارشادِ ربّ العزّت ہے:
<یَوْمَ لَایَنْفَعُ مَالٌ وَلَابَنُونَ ، إِلاَّ مَنْ اٴَتَی اللهَ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ
”اس روز نہ مال فائدہ دے گا اور نہ اولاد، نجات تو صرف اسے حاصل ہوگی کہ جو بارگاہِ الٰہی میں قلب سلیم لے کر حاضر ہوگا“(۸۸،۸۹(
یہاں تک کہ اگر یہ نسب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ آلہ وسلّم تک جا پہنچے تب بھی یہی قانون نافذ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم اور آئمہ ہدیٰ کی تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں، بنی ہاشم کے بعض نہایت قریبی افراد کو ان کے عدمِ ایمان یا اسلام کے حقیقی راستے سے انحراف کی وجہ سے دھتکار دیا گیا اور ان سے نفرت وبیزاری کا اظہار کیا گیا، اگرچہ پیغمبر اکرم سے ایک حدیث مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”کل حسب ونسب منقطع یوم القیامة الّا حسبی ونسبی“.
”روز قیامت میرے حسب(1) ونسب کے سوا تمام حسب ونسب منقطع ہوجائیں گے“(2) ۔ 
لیکن المیزان میں مرحوم علامہ سید محمد حسین طباطبائی رضوان الله علیہ کے بقول ایسا لگتا ہے کہ یہ وہی حدیث ہے جسے اہلِ سنت کے محدّثین نے اپنی کتب میں کبھی عبد الله بن عمر، کبھی عمر ابن خطاب اور کبھی دیگر اصحاب کے حوالے سے روایت کیا ہے جبکہ زیرِ بحث آیت بالکل ظاہری اور عمومی مفہوم رکھتی ہے اور روزِ قیامت تمام انسانب کے منقطع ہوجانے کی بات کرتی ہے، نیز قرآن حکیم سے جو اصول معلوم ہوتا ہے اور بے ایمان منحرف لوگوں سے رسول الله برتاوٴ سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، وہ یہی ہے کہ اس لحاظ سے تمام انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
اس ضمن میں ایک حدیث مناقب ابن شہر آشوب میں طاوٴس یمانی کی وساطت سے منقول ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
”خلق الله الجنّة لمن اطاع واٴحسن ولوکان عبداً حبشیاً، وخلق النّار لمن عصاہ ولوکان ولداً قرشیاً“.
”الله نے بہشت اُس کے لئے پیدا کی ہے کہ جو اس کی اطاعت کرے، اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو اور جہنّم اُس نے اس کے لئے پیدا کی ہے کہ جو اس کی نافرمانی کرے، اگرچہ وہ قریشی ہی کیوں نہ ہو“(3)۔ 
البتہ جو کچھ کہا گیا ہے وہ سادات اور رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی با تقویٰ اولاد کے خاص احترام کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ احترام خود ذاتِ پیغمبر اور اسلام کا احترام ہے اور جو روایات سادات کی فضیلت اور مقام ومنزلت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ بھی ظاہراً اسی مفہوم کی حامل ہیں ۔
1۔ لغت کے لحاظ ”حسب“ اُس اعزاز وافتخار کے معنی میں ہے کہ جو کسی انسان کے بزرگوں اور آباء واجداد کو حاصل ہو، بعض نے اس کا معنی خو د انسان کی اپنی عادت اور اخلاق بھی بیان کیا ہے، لیکن پہلا معنی ہی مراد ہے، (کتاب ”لسان العرب“ میں مادہ ”حسب“ کی طرف رجوع کریں) ۔
2۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں.
3۔ مناقب ابن شہرآشوب (طبق نقل تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۱۵۶۴