۳۔ ”کَلاَّ“ یہاں کس چیز کی نفی کرتا ہے؟
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ۹۹لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۱۰۰
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے. شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ه برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے.
”کَلاَّ“ عربی زبان میں روکنے اور دوسرے کی بات کو باطل کرنے کے لئے آتا ہے، اس کی ضد ”ای“ (جی ہاں) ہے کہ جو تصدیق کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
بعض نے کہا ہے کہ ”کلا“ دیناوی زندگی کی طرف واپسی کے کافروں کے تقاضے کی نفی ہے، یعنی واپسی کا راستہ بند ہے اور کسی طرف بھی اب تمھارا دنیاوی زندگی کی طرف لوٹ کے جانا ممکن نہیں ۔
بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ لفظ ان کے دعوے کی نفی ہے، اگر ہم دنیا کی طرف پلٹ جائیں تو اپنی گذشتہ کوتاہیوں کی تلافی کریں گے، الله کہتا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد اور کھوکھلا دعویٰ ہے اور اگر یہ پلٹ جائیں تو وہی پہلے کا سا طرزِ عمل جاری رکھیں گے ۔
البتہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ یہ لفظ دونوں کی نفی کے لئے ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ زیرِ بحث آیت میں یہ تقاضا اگرچہ مشرکین کی طرف سے لایا گیا ہے اور انہی کو جواب دیاجارہا ہے، تاہم یہ امر مسلم ہے کہ یہ امر نہی سے مخصوص نہیں، بلکہ تمام گناہگاروں، ظالموں اور غلط کاروں کی یہی خواہش ہوگی، جب وہ موت کو اپنے آستانے پر دیکھیں گے تو انھیں دردناک انجام نظر آئے گا، وہ اپنے گزشتہ کردار پر پشیمان ہوں گے اور واپسی کا تقاضا کریں گے، لیکن ان کی یعہ درخواست ٹھکرادی جائے گی ۔