Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ ”رَبِّ ارْجِعُونِ“ میں مخاطب کون ہے؟

										
																									
								

Ayat No : 99-100

: المؤمنون

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ۹۹لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۱۰۰

Translation

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے. شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ه برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے.

Tafseer

									یہاں لفظ ”ربّ“ ”ربّی“ کا مخفف ہے، جو نشاندہی کرتا ہے کہ مخاطب خدوندمتعال ہے، لیکن ”ارْجِعُونِ“ (مجھے آپ واپس لوٹادیں) چونکہ جمع کا صیغہ ہے، لہٰذا مخاطب خدا نہیں ہوسکتا، لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک لفظ مخاطب واحد کے لئے اور دوسرا مخاطب جمع کے لئے، ایسا کیوں ہے؟
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ مخاطب خدا ہی ہے اور جمع کا صیغہ یہاں احترام وتعظیم کے طور پر ہے، جیسا کہ ہماری فارسی زبان میں معمول ہے کہ ہم ایک مخاطب فرد کو احترام کے طور پر ”شما“ (آپ) کہتے ہیں، لیکن گذشتہ زمانوں میں عربی میں اس طرح سے رائج نہیں تھا اور قرآن میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جملے کی یہ تفسیر کمزور ہے ۔ 
یہ بات فرعون کی بیوی نے اس وقت کہی جب دریا سے بہتا ہوا، حضرت موسیٰ کا صندوق لایا گیا، اس میں پہلے فرعون مخاطب ہے اور اس کے بعد اس کے وہ ساتھی کہ جو بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل پر مامور تھے (غور کیجئے) ۔
بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ مخاطب دراصل موت کے قدر فرشتے ہیں کہ جن کے ذمے روحیں قبض کرنا ہے اور لفظ ”رب“ یہاں پر بارگاہ خدا کی ایک طرح کی فریاد ہے، ہمارے روز مرّہ کی گفتگو میں یوں بہت ہوتا ہے کہ جب انسان کسی بحرانی کیفیت سے دوچار ہو تو پہلے بارگاہِ خدا میں فریاد کرتا ہے اور بعد میں لوگوں سے مدد کرتا ہے ۔ مثلاً: ’یاالله؛ یا الله“ ”مجھے بچاوٴ؛ میری مدد کرو“ یہ تفسیر زیادہ صحیح نظر آتی ہے ۔
۔ سورہٴ قصص کی آیت۹میں ہے.:
<قُرَّةُ عَیْنٍ لِی وَلَکَ لَاتَقْتُلُوہُ 
”یہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا تم لوگ اسے قتل نہ کرو“۔